جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن وساوس وخیالات بارے حدیث میں آتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

    إن اللہ تجاوز عن أمتي ما وسوست بہ صدورھا مالم تعمل بہ أو تتکلم۔
    بے شک اللہ نے میری امت کے ان وسوسوں سے درگزر فرمایا ہے جو سینوں میں پیدا ہوتے ہیں، جب تک لوگ ان پر عمل نہ کریں یا زبانی اظہار نہ کریں۔ (متفق علیہ)

    دل ودماغ میں خیالات ووساوس کے آنے کے دو طریقے ہوتے ہیں

    1۔ جو بغیر اختیار کے خودبخود دل میں پیدا ہوجاتے ہے جس میں انسان کا ذاتی ارادہ شامل نہیں ہوتا۔ یہ وسوسہ وخیال تمام شریعتوں میں قابل معافی ہے۔
    2۔ اپنے اختیار اور ذاتی ارادے کے ساتھ دل میں برائی کا تصور پیدا کرنا۔ یہ وسوسہ شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اس وقت تک قابل معافی ہے جب تک اس وسوسے والا زبانی اظہار یا جسمانی عمل نہ کردے۔

    وسوسے اور خیالات سے بچنے کے وسائل وذرائع میں سے یہ ہے کہ

    1۔ اللہ کی پناہ طلب کرنا‎
    ‏ یعنی أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھنا، کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے ” وَاِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطَانِ نَزْغ فَاسْتَعِذْ بِاللہِ ‏اِنَّہ سَمِیْع عَلِیْم ” اور اگر آپ کو کوئی وسوسہ شیطان کی طرف سے آئے تو اللہ کی پناہ طلب کرلیا کریں بلاشبہ وہ خوب سننے والا ‏خوب جاننے والا ہے۔ ( الاعراف:200)

    2۔ قوت ارادی کا مضبوط ہونا اور وسوسوں کو اہمیت نہ دینا
    ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ شیطانی وسوسوں کو حتی الامکان دفع کرے اور ان پر کوئی توجہ نہ دے، بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ‏نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے وسوسوں کے بارے میں شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم میں سے کسی کے پاس شیطان آکر ‏کہتا ہے کہ اس کو کس نے پیدا کیا ‘ یہاں تک کہ یہ بھی کہتا ہے کہ تمہارے رب کو کس نے پیدا کیا ‘ جب اس حالت کو پہنچ جائے تو ‏اللہ کی پناہ طلب کرے اور باز آجائے۔ ( بخاری ومسلم )‏

    3۔ اللہ پر توکل وبھروسہ
    وسوسوں اور برے خیالات کو ختم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ اللہ کی ذات پر مکمل اعتماد اورتوکل ہے ارشاد ربانی ہے ” وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ ‏عَلَی اللَّہِ فَہُوَ حَسْبُہُ ” جو اللہ پر بھروسہ کرے گا اللہ اس کے لئے کافی ہوگا “( الطلاق : 3)

    4۔ تلاوت قرآن
    تلاوت قرآن کرنے سے بھی انسان اس طرح کے وساوس وخیالات سے محفوظ رہتا ہے۔ جیسا کہ اِرشادِ ربّانی ہے ” وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا ہُوَ شِفَائ وَّرَحْمَة لِّلْمُؤمِنِیْنَ ” یہ قرآن جو ہم نازل کررہے ہیں مومنوں ‏کے لئے سراسر شفاء ورحمت ہے “( الاسراء :82 ) قرآن میں عام شفاء ہے جو دل کی بیماریوں کو بھی شامل ہے جیسے شکوک ‏وشبہات، جہالت ونادانی، فاسد آراء وراہ حق سے اِنحراف اور غلط خیالات وغیرہ۔

    5۔ اللہ کا ذکر
    نبی کریم صلی اللہ ‏علیہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں : ’’جو اپنے رب کا ذکر کرتا ہے اورجو اپنے رب کا ذکر نہیں کرتا دونوں کی مثال زندہ اورمردہ کی ہے ‘‘۔ جب ‏بندہ اللہ کا ذکر کرنا چھوڑدیتا ہے تو اس کا دل شیاطین اور ان کے وسوسوں کا اڈہ بن جاتا ہے، اس کے برعکس وہ انسان جو اللہ کا ذکر ‏کرتا رہتا ہے اس کے پاس انشراح صدر اور نفس کی پاکیزگی ہوتی ہے اور اس پرسکون ورحمت سایہ فگن رہتی ہے۔ اللہ کے ذکر میں صبح ‏وشام کے اذکارکی پابندی ہے جو شیطان اور اس کے وسوسوں سے حفاظت کا مضبوط قلعہ اور محفوظ پناہ گاہ ہے۔

    6۔ اچھی صحبت اور تنہائی سے اجتناب‎
    نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے والا کبھی بدبخت نہیں ہوسکتا، کیونکہ نیک لوگوں کی صحبت شیطانی خیالات ووساوس کو دور کرنے کا ‏ایک اہم ذریعہ ہے، اس کے برعکس خلوت وتنہائی شیطانی خیالات ووسوسے، قلق وبے چینی، اطمینان وراحت کا فقدان اور بُرے ‏خیالات کو جنم دیتی ہے، کیونکہ بھیڑیا دور اور الگ تھلگ رہنے والی بکری ہی کو لقمہ بناتا ہے۔

    7۔ دعا کا اہتمام
    دعا وسوسہ ختم کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے کیونکہ وسوسہ میں گرفتار شخص انتہائی بڑی مصیبت وپریشانی اورتنگی میں ہوتا ہے جس کا علم ‏اللہ کے سوا کسی کے پاس نہیں ہوتا اس موقعہ پر اس کے سامنے سارے راستے مسدود ہوتے ہیں صرف ایک راستہ کھلا ہوتا ہے وہ اللہ ‏کا راستہ ہوتا ہے، اللہ ہی مصائب وآلام اور ہموم وغموم کے ٹالنے پر قادرہے ارشاد ربانی ہے: ” أَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا ‏دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوْئَ ” بے کس کی دعا کون قبول کرتا ہے اور مصیبت کو کون ٹالتا ہے۔(النمل :62)‏

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں