جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! مختلف موقعوں پہ دف بجائی جاسکتی ہے، اور بجائی گئی ہے۔ لیکن نعت کے ساتھ دف بجانے کا جواز فراہم نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ دف کا سہارا لے کر نعت خواں حضرات نے نعت میں گانوں کو فروغ دیا ہے جس وجہ سے دور حاضر کی دف کے ساتھ نعت کو پڑھنے کو علماء نے جائز نہیں کہا ہے۔

    جو لوگ نعت کے ساتھ دف بجانے کے قائل ہیں اور جواز کا کہتے ہیں وہ اس موضوع پر بات سنتے ساتھ ہی حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی مدینہ آمد پر چھوٹی بچیوں نے دف بجا کر استقبال کا حوالہ دیتے ہیں۔ تو انہیں یہ سوچنا سمجھنا چاہیے کہ اس دف میں جلاجل (جھانجھ) اور ساز وغیرہ نہ تھے۔ اور دوسرا بیشک دف بجا کر استقبال کیا گیا تھا لیکن دف بجائی گئی تھی طبلہ نہیں، آج کل جو محفل نعت میں دف کے نام پہ بجایا جاتا ہے وہ در حقیقت طبلہ ہے اور طبلے باجوں کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جو اصل دف ہوتی ہے وہ تھالی نما ہوتی ہے اور اس کو بجانے سے بےڈھنگا سا سر پیدا ہوتا ہے جو متواتر نہیں ہوتا جس کی وجہ سے سننے والا پیدا ہونے والے سر کی طرف مائل نہیں ہوتا۔ لیکن جو دور حاضر میں دف بجائی جاتی ہے اس کے ساتھ گھنگھرو لگے ہوتے اور سر بھی متواتر ایک جیسا پیدا ہوتا ہے جس کی وجہ سے اکثر محفلوں میں لوگ سر کی طرف مائل ہو کر دھیما دھیما رقص شروع کر دیتے ہیں۔

    اس قسم کی دف جس میں سر، ساز ، جلاجل وغیرہ شامل ہوتا ہے، مگر پھر بھی اس کا جواز فراہم کیا جاتا ہے تو ایسے لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث سامنے رکھنی چاہیے۔

    وَقَالَ هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ: حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، حَدَّثَنَا عَطِيَّةُ بْنُ قَيْسٍ الكِلاَبِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ غَنْمٍ الأَشْعَرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو عَامِرٍ أَوْ أَبُو مَالِكٍ الْأَشْعَرِيُّ، وَاللَّهِ مَا كَذَبَنِي: سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لَيَكُونَنَّ مِنْ أُمَّتِي أَقْوَامٌ، يَسْتَحِلُّونَ الحِرَ وَالحَرِيرَ، وَالخَمْرَ وَالمَعَازِفَ، وَلَيَنْزِلَنَّ أَقْوَامٌ إِلَى جَنْبِ عَلَمٍ، يَرُوحُ عَلَيْهِمْ بِسَارِحَةٍ لَهُمْ، يَأْتِيهِمْ – يَعْنِي الفَقِيرَ – لِحَاجَةٍ فَيَقُولُونَ: ارْجِعْ إِلَيْنَا غَدًا، فَيُبَيِّتُهُمُ اللَّهُ، وَيَضَعُ العَلَمَ، وَيَمْسَخُ آخَرِينَ قِرَدَةً وَخَنَازِيرَ إِلَى يَوْمِ القِيَامَةِ ۔(بخاری:5590)
    اور ہشام بن عمار نے بیان کیا کہ ان سے صدقہ بن خالد نے بیان کیا، ان سے عبد الرحمن بن یزید نے، ان سے عطیہ بن قیس کلابی نے، ان سے عبدالرحمن بن غنم اشعری نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے ابو عامر رضی اللہ عنہ یا ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اللہ کی قسم انہوں نے جھوٹ نہیں بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں ایسے برے لوگ پیدا ہوجائیں گے جو زنا کاری، ریشم کا پہننا، شراب پینا اور گانے بجانے کو حلال بنالیں گے اور کچھ متکبر قسم کے لوگ پہاڑ کی چوٹی پر ( اپنے بنگلوں میں رہائش کرنے کے لیے ) چلے جائیں گے ۔ چرواہے ان کے مویشی صبح وشام لائیں گے اور لے جائیں گے ۔ ان کے پاس ایک فقیر آدمی اپنی ضرورت لے کر جائے گا تو وہ ٹالنے کے لیے اس سے کہیں گے کہ کل آنا لیکن اللہ تعالیٰ رات کو ان کو ( ان کی سرکشی کی وجہ سے ) ہلاک کردے گا پہاڑ کو ( ان پر ) گرادے گا اور ان میں سے بہت سوں کو قیامت تک کے لیے بندر اور سور کی صورتوں میں مسخ کردے گا ۔

    اور اس حدیث میں ایسے لوگوں کو برے لوگ کہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسے لوگوں سے دور رکھے۔ آمین

    باقی جہاں تک نعت کا تعلق ہے تو فی نفسہ اس کے سننے میں کوئی قباحت نہیں بلکہ اگر نعت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح مقام بیان کیا گیا ہوتو اس کا پڑھنا اور سننا باعث ثواب ہے۔ لیکن اس کے جواز کے لئے کچھ قیود و شرائط ہیں

    1۔ نعت کے ساتھ آلات موسیقی استعمال نہ ہوں کیونکہ آلات موسیقی کے استعمال سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر منع فرمایا ہے۔
    2۔ جس جگہ نعت پڑھی جائے وہاں اجنبی عورتوں مردوں کا اختلاط نہ ہو ایسی مجلس میں جانا جائز نہ ہوگا بے شک وہاں نعت خوانی کیوں نہ ہوتی ہو۔
    3۔ نعتوں میں مبالغہ آمیزی نہ ہو اور اشعار میں جھوٹ اور غلط بیانی سے کام نہ لیا گیا ہو۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں