ولیمہ کرنے والے کے ساتھ قربانی کرنے والا حصہ ڈال سکتا ہے؟
سوال
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ہمارے کچھ رشتہ دار عید کے دوسرے دن شادی کے ولیمے کے لیے گائے ذبح کرنا چاہتے ہیں، تو کیا یہ جائز ہے کہ ہم ان کے ساتھ عید الاضحیٰ کی قربانی کی نیت سے حصہ ڈال لیں؟ اور کیا اس طرح ہمیں مکمل ثواب ملے گا؟
جواب ( 1 )
جواب:
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اول:
حاضرین نکاح کی کسی بھی کھانے سے ضیافت کر دی جائے ولیمہ ہو جائے گا، چاہے جَو سے بنا ہوا کھانا ہی کیوں نہ ہو۔
الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے کہ
“حنفی، مالکی ، شافعی اور حنبلی فقہائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ کم از کم ولیمے کی مقدار کی کوئی حد نہیں ہے، کسی بھی کھانے سے ضیافت کر دیں ولیمے کی سنت پوری ہو جاتی ہے چاہے اس کیلیے دو مد (فطرانے کی مقدار کا نصف) ہی کھانا کیوں نہ ہو، جیسے کہ صحیح حدیث میں ہے کہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی بیوی کا ولیمہ دو مد جو سے کیا)۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ: 45/ 250)
قاضی عیاض رحمہ اللہ نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ ولیمے کی کم ازکم مقدار کی کوئی حد نہیں ہے، نیز کسی چیز سے ولیمہ کر دیا جائے تو سنت پر عمل ہو جاتا ہے۔
شافعی فقہائے کرام کہتے ہیں:
’’صاحب حیثیت کے لیے کم از کم ولیمے کی مقدار ایک بکر ی ہے۔‘‘ جب کہ دیگر افراد حسب استطاعت ولیمہ کریں؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو شادی کے وقت فرمایا تھا: (ولیمہ کرو چاہے ایک بکری ہی ذبح کرو)
امام نشائی رحمہ اللہ کہتے ہیں: مطلب یہ ہے کہ کامل ولیمے کی کم از کم مقدار ایک بکری ذبح کرنا ہے؛ کیونکہ حدیث میں ولیمہ کرنے کے لیے تنبیہ موجود ہے: البتہ ولیمے میں کوئی بھی کھانا کھلا دیا جائے تو یہ جائز ہے، ولیمے کے کھانے میں ہر طرح کے کھانے پینے کی چیزیں شامل ہو سکتی ہیں جنہیں تقریب نکاح کیلیے تیار کیا جائے چاہے وہ مشروب ہی ہو خواہ صاحب نکاح صاحب ثروت ہی کیوں نہ ہو۔
جبکہ متعدد حنبلی فقہائے کرام یہ کہتے ہیں کہ مستحب یہی ہے کہ ولیمہ ایک بکری سے کم نہ ہو ۔
امام زرکشی رحمہ اللہ کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (چاہے ایک بکری ہی ہو) –واللہ اعلم- یہاں مطلب یہ ہے کہ اس حدیث میں ولیمے کی کم از کم مقدار بیان کی گئی ہے یعنی کم سے کم چاہے ایک بکری ہو۔
امام مرداوی رحمہ اللہ کہتے ہیں: اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ولیمے میں بکری کے علاوہ کوئی بھی چیز کھانے کے لیے تیار کی جا سکتی ہے ، نیز یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مستحب یہی ہے کہ بکری سے زیادہ ہونا چاہیے؛ کیونکہ بکری کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کم از کم مقدار قرار دیا ہے۔ انتہی
دوم:
قربانی میں گائے یا اونٹ کا ساتواں حصہ کفایت کر جاتا ہے۔
سوم:
گائے یا اونٹ کی قربانی میں ایسے لوگ بھی حصے دار ہو سکتے ہیں جو قربانی کا ارادہ نہیں رکھتے، بلکہ ان کا مقصد یہ ہے کہ نکاح کے ولیمے پر گوشت کی ضرورت پوری کی جائے، یا خود کھائے یا گوشت بیچے یا کسی اور غرض سے حصہ ڈالے۔
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’قربانی کے لیے بکری یا گائے میں سات افراد شامل ہو سکتے ہیں، چاہے یہ افراد ایک ہی گھرانے سے تعلق رکھتے ہوں یا الگ الگ گھروں سے، یا کچھ صرف گوشت حاصل کرنا چاہتے ہوں ، اس طرح قربانی کرنے والے کی طرف سے قربانی کا حصہ کفایت کر جائے گا، چاہے قربانی کرنے والے کی قربانی نذر مانی ہوئی ہو یا نفلی قربانی ہو۔ ہمارا یہی موقف ہے اس کے امام احمد سمیت جمہور علمائے کرام قائل ہیں۔‘‘ (المجموع: 8/372) انتہی
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’اونٹ سات افراد کی طرف سے اور اسی طرح گائے بھی سات افراد کی طرف سے کفایت کر جاتی ہے، یہ اکثر اہل علم کا موقف ہے۔‘‘ (المغنی:13/363)
پھر انہوں نے اس کی دلیل کے طور پر متعدد احادیث ذکرکیں اور پھر کہا:
’’جب یہ ثابت ہو گیا تو پھر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تمام کے تمام حصہ دار افراد ایک گھر سے تعلق رکھتے ہیں یا نہیں، سب فرض قربانی کر رہے ہیں یا نفل، یا کچھ محض گوشت کے حصول کیلیے قربانی میں حصے دار ہیں یا کچھ قر بانی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؛ کیونکہ ہر انسان کا حصہ اس کی نیت کے مطابق کفایت کرے گا، اس لیے کسی دوسرے کی نیت سے اس پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا۔‘‘ انتہی
اس بنا پر:
اس میں کوئی حرج والی بات نہیں ہے کہ آپ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ قربانی میں شریک ہوں کہ آپ گائے کے ساتویں حصے کی قربانی کی نیت کریں –آپ ساتویں حصے سے کم کی قربانی نہیں کر سکتے- جبکہ بقیہ حصوں میں آپ کے رشتہ دار اپنی مرضی کر سکتے ہیں چاہے وہ ولیمے کیلیے حصہ دار بنیں یا کسی اور مقصد کے لیے۔
فتویٰ لنک:
https://islamqa.info/ur/255557