جس ملک کا مطلع مکہ سے مختلف ہو وہاں کا رہائشی عرفہ کے دن دعا کیسے مانگے؟
سوال: مجھے عید الاضحیٰ کے متعلق ایک رائے کے بارے میں بہت تعجب ہے، میں نے آپ کے 9 ذو الحجہ کے دن غیر حجاج کےلیے روزے رکھنے کے متعلق ایک فتوی میں پڑھا تھا جو کہ عید الاضحیٰ کے بارے میں یہاں کی مقامی رائے سے الگ تھا کہ یہاں پر عید الاضحیٰ سعودی عرب کی 9 ذو الحجہ کے دن ہو سکتی ہے، یا مثال کے طور پر اگر سعودی عرب میں 9 ذو الحجہ ہو تو ایسا ممکن ہے کہ برطانیہ میں 10 ذو الحجہ یعنی عید کا دن ہو، مجھے درج ذیل کے بارے میں یقین نہیں ہے:
میں نے ایک کتاب میں پڑھا تھا کہ آپ کو عرفہ (9 ذو الحجہ) کے دن ایسے ہی کرنا چاہیے جیسے حجاج کرتے ہیں یعنی آپ بھی اسی وقت میں کھڑے ہو کر دعا کریں، تو یہ کام اس صورت میں تو آسان ہو سکتا ہے جب تمام کے تمام مسلمان ایک ہی دن عید منائیں۔ مگر یہ کام پہلے بیان کردہ مقامی رائے کو سامنے رکھتے ہوئے کیسے ہو سکتا ہے؟ کیونکہ ہمیشہ 9 ذو الحجہ کا دن سعودی عرب سے مختلف ہوتا ہے، یعنی کہ آپ سعودی عرب سے ہٹ کر کسی اور دن میں دعا کریں گے، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ سعودی عرب میں حجاج کرام کے ساتھ بیک وقت دعا میں شریک نہیں ہو سکیں گے۔
چلیں ہم یوں کہہ لیتے ہیں کہ سعودی عرب میں 9 ذو الحجہ کے دن عرفات کا دن ہوتا ہے لیکن برطانیہ میں آپ مقامی رائے کو سامنے رکھتے ہوئے 8 کو دعا کر لیں کہ یہاں کی 8 تاریخ کو سعودی عرب میں حجاج عرفات میں ہوتے ہیں اس طرح آپ کو حجاج کے ساتھ دعا کرنے کا موقع مل جائے گا، یا آپ دعا کے لیے 9 ذو الحجہ کا انتظار کریں گے؟ بہر حال ہمیں بیک وقت دعا کرنے کا موقع نہیں ملے گا؛ کیونکہ برطانیہ کی نو تاریخ سعودی عرب میں 10 تاریخ کے دن آتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ میرا سوال آپ سمجھ گئے ہیں، اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر سے نوازے۔
جواب ( 1 )
جواب:
اول:
یوم عرفہ اور عرفہ کے دن کا روزہ ذوالحجہ کی 9 تاریخ کو ہوتا ہے، جس کی تعیین ہر علاقے میں ذو الحجہ کے چاند کی رؤیت کے اعتبار سے ہوتی ہے، چنانچہ ایسا ممکن ہے کہ اہل مکہ کا دن مثال کے طور پر جمعرات ہو اور دیگر علاقوں میں بدھ کا دن ہو، یا کہیں ہفتہ ہو۔ نیز ایسی پابندی نہیں ہے کہ اگر کسی علاقے کا چاند کا مطلع اہل مکہ سے مختلف ہو تو وہ اہل مکہ کے مطابق عمل کریں، اہل علم کی آرا میں سے یہی موقف راجح ہے کہ اگر چاند کا مطلع الگ الگ ہو تو ہر علاقے میں ان کی رؤیت کا اعتبار ہوگا۔
لہٰذا اگر مسلمان برطانیہ میں رؤیت ہلال کا اہتمام کرتے ہیں تو وہاں پر تمام مسلمانوں کو ان کی رؤیت کا پابند ہونا چاہیے اور اگر رؤیت ہلال کا اہتمام نہیں ہے تو پھر اپنے قریب ترین ملک کی رؤیت کو معیار بنائیں۔
دوم:
عرفہ کے دن دعا کی بہت ہی عظیم فضیلت ہے؛ اس بارے میں سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بہترین دعا عرفہ کے دن کی دعا ہے، (اس دن ) میں نے اور مجھ سے پہلے انبیائے کرام نے سب سے بہترین دعا یہ کی ہے:
’’ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ‘‘
اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی شاہی ہے، اسی کیلیے حمد ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔) ترمذی: (3585) اس حدیث کو البانی نے صحیح الترغیب (1536) میں حسن قرار دیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ فضیلت صرف ان لوگوں کےلیے ہے جو میدان عرفات میں ہوں؟ یا باقی جگہوں کے لیے بھی ہے؟ چنانچہ اگر یہ کہیں کہ یہ فضیلت بقیہ تمام علاقوں اور خطوں کےلیے بھی ہے تو اس بارے میں یہی بات کہی جائے گی جو ابھی چند سطور پہلے کہی گئی ہے۔
انسان اپنے علاقے میں چاند کی رؤیت کے اعتبار سے 9 ذو الحجہ کو دعا کرے گا، چاہے حجاج ان سے ایک دن پہلے یا بعد میں وقوف عرفہ کریں۔
واللہ اعلم بالصواب