عورت کا عورت سے پردہ کرنا
سوال
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سوال:
بہن نے سوال کیا ہے کہ کیا عورت کا عورت سے پردہ بارے بھی کوئی حکم ہے؟۔
Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link and will create a new password via email.
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit.Morbi adipiscing gravdio, sit amet suscipit risus ultrices eu.Fusce viverra neque at purus laoreet consequa.Vivamus vulputate posuere nisl quis consequat.
جوابات ( 2 )
جواب:
بہن ایسی کوئی بات ثابت نہیں کہ عورت بھی عورت سے پردہ کرے۔
واللہ اعلم بالصواب
جواب:
بہن ایسی کوئی بات ثابت نہیں کہ عورت بھی عورت سے پردہ کرے۔
واللہ اعلم بالصواب
عورت کا عورت سے پردہ جواب پر اعتراض اور اس کی وضاحت
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سوال:
بہن نے سوال کیا کہ کیا عورت کا عورت سے پردہ ہے؟ جس کا جواب نہیں میں دیا گیا کہ ایسی کوئی بات ثابت نہیں کہ عورت عورت سے پردہ کرے، تو کچھ بہنوں کو تشویش لاحق ہوئی کہ کیا یہ جواب درست ہے؟ جبکہ انہوں نے پڑھ اور سن رکھا ہے کہ سورۃ النور کی آیت نمبر31 سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورت کو ایسی عورتوں سے بھی پردہ کرنا چاہیے جو ان کی باتیں اپنے خاوندوں یا بھائیوں وغیرہ کو بتاتی ہوں۔
جواب:
پہلی بات
آپ سب یہ سمجھیں کہ جیسا سوال کیا جاتا ہے، اسی طرح جواب دینا ہوتا ہے۔ اور یہ فتویٰ نویسی کے اہم اصولوں میں سے ہے۔ (مجھے مفتی نہ سمجھا جائے، میں تو بس ترتیب دے کر آپ کے سوالات کے جوابات آپ تک فراہم کردیتا ہوں) بہن کی طرف سے مطلق سوال تھا کہ عورتوں سے عورتیں پردہ کریں؟ جس کا جواب نہیں میں ہی تھا، کیونکہ اس بارے کوئی نص نہیں۔ سو نہیں میں جواب دیا۔ لیکن جب کسی مطلق کے بجائے اس کے استثناء بارے پوچھنا ہو تو پھر سوال میں اس کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اور مجیب اسی کے حوالے سے جواب دیتا ہے۔ ورنہ اگر مجیب کیے جانے والے سوال کی مزید شکلیں اپنی طرف سے نکال کر ان سب کا جواب بھی دینا شروع کردے، تو یہ بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ اور پھرسوال سے زیادہ اس سوال کے لوازمات پر بحث شروع ہوجاتی ہے۔ اس لیے آئندہ سوال وہ کریں، جو آپ نے پوچھنا ہے۔ جزاکم اللہ خیرا
دوسری بات
ان بہنوں کی خدمت میں الزامی سوال ہے کہ سب سے پہلے تو یہ بتائیں کہ ہم کس عورت پر اعتماد کریں کہ یہ عورتیں آپ کے بارے میں اپنے خاوندوں یا بھائیوں کو نہیں بتاتیں، لہٰذا ان سے پردہ نہ کریں اور یہ بتاتی ہیں سو ان سے پردہ کریں۔ یہ بھی تو ممکن ہے کہ جن کے بارے آپ کا خیال نہ بتانے کا ہو، یعنی وہ اچھی ہوں، تو وہ بتا دیں اور جن کے بارے آپ کا خیال بتانے کا ہو یعنی وہ بری ہوں، وہ نہ بتائیں۔ لہٰذا یہ کوئی کسوٹی نہیں اور نہ ہی کوئی طریقہ ہے۔ اور نہ ہی اس طرح اسلامی حکم لاگو کیے جاتے ہیں۔
تیسری بات
جو بہنیں سورۃ نور کے حوالے سے کہہ رہی ہیں کہ اس میں یہ ذکر ہے کہ عورت عورت سے پردہ کرے، تو ایسی کوئی صورت بھی سورۃ نور میں موجود نہیں۔ سورۃ النور کی آیت نمبر31 کی وضاحت کیے دیتا ہوں کہ اس آیت کے چار حصے ہیں۔
حصہ نمبر1
قُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ
مسلمان عورتوں سے کہو کہ وه بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں، سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں۔
حصہ نمبر2
وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ
اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں، سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد کے یا اپنے خسر کے یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے یا غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکر مردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہیں۔
حصہ نمبر3
وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ
اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیده زینت معلوم ہوجائے۔
حصہ نمبر4
وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
اے مسلمانو! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ
بہنوں کا جو استدلال ہے وہ اس آیت کے حصہ نمبر2 کے یہ الفاظ ہیں ’’َ أَوْ نِسَائِهِنَّ ‘‘ لیکن آپ بہنیں اس حصہ کے شروع کے الفاظ ’’وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ‘‘ پر غور کریں، کہ اپنی زینت کسی کے سامنے بھی ظاہر نہیں کرنی، لیکن اس کے بعد لفظ ’’إِلَّا ‘‘ نے کچھ کو مستثنیٰ کردیا ہے۔ جس میں ’’َ أَوْ نِسَائِهِنَّ ‘‘ بھی شامل ہیں۔ اور ایک عورت دوسری عورت کےلیے اس کے باپ اور اس کے بھائی کی مثل ہوتی ہے۔ مطلب یہ کہ جو کچھ ایک عورت اپنے بھائی اور اپنے باپ کے سامنے ظاہر کرسکتی ہے، وہی ایک عورت دوسری عورت کے سامنے بھی ظاہر کرسکتی ہے۔ جہاں تک عورت کے ستر کی بات ہے تو وہ کسی عورت کے سامنے بھی پیش نہیں کرسکتی سوائے اپنے خاوند کے۔
باقی جہاں تک فاحشہ یا کافرہ عورتوں کے بارے میں بات ہے، تو عورت کے ان سے پردہ کرنے یا کروانے کا قائل کوئی بھی نہیں۔ ہاں کچھ علماء نے اس سے یہ سمجھا ہے کہ عورت مسلمان عورتوں کے سامنے اپنی زینت اور اپنا حسن وجمال پیش کرسکتی ہے۔ جو وہ اپنے باپ اور اپنے بھائی کے سامنے پیش نہیں کرسکتی، سوائے اپنے خاوند کے۔ لیکن ان مسلمان عورتوں کو بھی یہاں یہ ممانعت ہے کہ وہ ان کی جسمانی خدوخال اپنے خاوندوں سے بیان کریں۔ لیکن ایسی زینت اور ایسی خوبصورتی کا اظہار جو وہ صرف اپنے خاوند کے سامنے کرسکتی ہے وہ کافرعورتوں کے سامنے نہیں کرسکتی۔ لیکن اس میں بھی درست بات یہی ہے کہ ایک عورت دوسری عورت کےلیے ایسے ہے جیسے اس کا بھائی یا باپ۔ یعنی اپنے جسم کے جو حصے وہ اپنے بھائی اور اپنے باپ سامنے ظاہر کرسکتی ہے، وہی حصے ایک عورت کے سامنے بھی ظاہر کرسکتی ہے۔ چاہے وہ عورت مسلمان ہو یا کافر۔
اس کے علاوہ باقی احتیاطی امر (شرعی نہیں) ہے، وہ یہ کہ کافرہ ، فاحشہ وغیرہ قسم کی عورتوں سے اسی طرح میل ملاپ، اور اسی طرح اپنے بارے میں باتیں یا اس طرح اپنی زیب زینت کا اظہار جس طرح ایک مسلمان عورت سے کی جاتی ہیں۔ وہ نہیں کرنی چاہیے۔ تاکہ ان سے ایک قسم کا نفرت کا اظہار قائم رہے۔ اور اس طرح ایک حدیث بھی ہے کہ
اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے پاس ایک مخنث (شی میل) آیا کرتا تھا اور وہ اس کو ان لوگوں میں سے سمجھتیں تھیں جن کو عورتوں سے کوئی غرض نہیں ہوتی (اور قرآن میں ان کا عورتوں کے سامنے آنا جائز رکھا ہے)۔ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی زوجہ مطہرہ کے پاس آئے تو وہ ایک عورت کی تعریف کر رہا تھا کہ جب سامنے آتی ہے تو چار بٹیں لے کر آتی ہے اور جب پیٹھ موڑتی ہے تو آٹھ بٹیں ظاہرہوتی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ یہاں جو ہیں ان کو پہچانتا ہے (یعنی عورتوں کے حسن اور قبح کو پسند کرتا ہے) یہ تمہارے پاس نہ آئیں۔ (سیدہ عائشہ کہتی ہیں) پس انہوں نے اُسے روک دیا۔(مسلم)
اس کے علاوہ میرے علم میں کوئی ایسی بات نہیں، اگر کوئی میری بہن اس بارے میں جانتی ہے تو مجھے میسج کرسکتی ہے۔ جزاکم اللہ خیرا
واللہ اعلم بالصواب