اسقاط حمل کروانا
سوال
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
سوال:
مجھے یہ پوچھنا ہے کہ میرے گیارہ دن چڑھ گئے ہیں میری بچی ابھی بہت چھوٹی ہے اور اسے فیڈ کراتی ہوں اورمیں میں بار بار آپریشن کی ازیت برداشت نہیں کرسکتی کیو نکہ میری صحت بھی ٹھیک نہیں ۔تو اسقاط کروانے سے بھی ڈرتی ہوں آپ مجھے بتائیں میں کیا کروں ؟
جواب ( 1 )
جواب؛
فقہائے کرام کا چالیس دن سے پہلے اسقاط حمل کے بارے میں مختلف آراء رکھتے ہیں، چنانچہ متعدد حنفی اور شافعی فقہائے کرام کے ساتھ ساتھ حنبلی فقہاء اسے جائز کہتے ہیں۔
ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ “جامع العلوم والحكم” میں کہتے ہیں کہ:
“رفاعہ بن رافع سے نقل کیا گیا ہے کہ : میرے پاس عمر، علی، زبیر، اور سعد سمیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام جمع ہوئے، اور “عزل” [جماع کے دوران انزال باہر کرنا]کے بارے میں گفتگو شروع ہوگئی، تو سب نے کہا : “اس میں کوئی حرج نہیں ہے”، اس پر ایک آدمی نے کہا کہ: “کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ زندہ درگور کرنے کی چھوٹی صورت ہے”، اس پر علی رضی اللہ عنہ نے کہا:”زندہ درگوری اس وقت شمار ہو گی جب سات مراحل گزرچکےہوں ، سب سے پہلے مٹی کا سلالہ [جوہر] ، پھر اس سے نطفہ، پھر علقہ[لوتھڑا]، پھر مضغہ [چبایا ہوا]، پھر ہڈیاں، پھر گوشت، اور پھر باقی اعضاء کی تخلیق ” اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: “تم سچ کہتے ہو، اللہ تعالی آپکو لمبی زندگی دے” اس روایت کو دارقطنی نے “المؤتلف و المختلف” میں نقل کیا ہے۔
سپریم علماء کونسل کے اجلاس میں منظور شدہ قرار داد میں ہے کہ:
1- حمل کے کسی بھی مرحلہ میں اسقاط حمل جائز نہیں ہے، البتہ کسی شرعی عذر کی بنا پر انتہائی سنگین اور دشواری کی حالت میں اس کی اجازت ہے۔
2- اگر حمل کا ابھی پہلا مرحلہ یعنی ابتدائی چالیس دن کی مدت میں ہو تو شرعی مصلحت، یا بڑے نقصان سے بچنے کیلئے ساقط کرنا جائز ہے، تاہم اس مدت میں صرف اس وجہ سے حمل ساقط کرنا کہ بچوں کی پرورش میں مشقت ہو گی، یا انکی تعلیم و تربیت کے خرچے برداشت نہیں ہوں گے، یا اس لئے ساقط کرنا کہ جتنے بچے موجود ہیں یہی کافی ہیں، تو یہ درست نہیں ہے” انتہی
“الفتاوى الجامعہ” (3/1055)
دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی (21/450) میں ہے:
“اصل یہی ہے کہ کسی بھی مرحلے میں شرعی عذر کے بغیر اسقاطِ حمل جائز نہیں ہے، تاہم اگر حمل ابھی تک نطفہ یعنی ابتدائی چالیس دن کی مدت میں ہے، اور کسی شرعی مصلحت یا ماں کو حمل کی وجہ سے نقصان کا خدشہ ہے تو اسقاطِ حمل جائز ہوگا، لیکن اس میں بچوں کی پرورش، ان کے خرچے، اور تعلیم و تربیت کے لئے درکار مشقت کی وجہ سےاسقاطِ حمل درست نہیں ہے، اسی طرح معین تعداد میں بچوں پر اکتفاء کرنا بھی غیر شرعی عذر شمار ہوتا ہے۔
اور اگر حمل کی مدت چالیس دن سے زیادہ ہوچکی ہے؛ تو ایسی صورت میں اسقاطِ حمل حرام ہوگا، کیونکہ چالیس دن کے بعد نطفہ علقہ [لوتھڑا] بن جاتا ہے، اور یہ مرحلہ تخلیق انسان کی ابتدا ہوتی ہے، چنانچہ اس مرحلے میں پہنچنے کے بعد اسقاط حمل جائز نہیں ہے، اور اگر معتبر طبی ماہرین کی ٹیم یہ رائے دے کہ حمل ٹھہرنے سے ماں کی زندگی کو خطرہ ہوگا، اور اگر حمل جاری رہا تو ماں کی زندگی شدید خطرے میں چلی جائے گی، تو ایسی صورت میں اسقاطِ حمل جائز ہوگا”
سوال میں مذکور صورت کے بارے میں یہی ظاہر ہے کہ اسقاط حمل جائز ہے، کیونکہ مسلسل حمل کی صورت میں ماں ، اور شیر خوار بچے کو نقصان کا خطرہ ہے۔
واللہ أعلم بالصواب