مانع حمل کیپسول کا استعمال
سوال
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سوال:
سوال ہے کہ کیا مانع حمل کے لیے کیپسول کا استعمال شرعاً جائز ہے کہ نہیں؟ وضاحت فرمائیں
Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link and will create a new password via email.
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit.Morbi adipiscing gravdio, sit amet suscipit risus ultrices eu.Fusce viverra neque at purus laoreet consequa.Vivamus vulputate posuere nisl quis consequat.
جواب ( 1 )
جواب:
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے جب اس طرح کا سوال ہوا، تو آپ رحمہ اللہ نے جو جواب دیا، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مانع حمل کے لیے کیپسول کا استعمال دو شرطوں کے ساتھ جائز ہے :
پہلی شرط :
عورت کوکسی قسم کا نقصان اورضرر نہ ہو ۔
دوسری شرط :
خاوند اس کے استعمال کی اجازت دے ۔
لیکن یہ بات جان لینی چاہیے کہ عورت کے لیے لائق نہيں کہ وہ منع حمل کے لیے کوئی بھی چیز استعمال کرے، کیونکہ یہ شرعی مقصد کے خلاف ہے بلکہ اولیٰ اور بہتر تویہ ہے کہ اسے اسی طرح باقی رہنا چاہیے جس طرح کہ اللہ تعالی نے اسے کثرت نسل پر پیدا فرمایا ہے ۔ کیونکہ کثرت نسل میں بہت ہی عظیم مصلحتیں ہيں، اوریہ انسان کونہ تواس کے رزق میں اورنہ ہی تربیت اور صحت میں کوئی نقصان اورضرر دیتی ہے ۔
لیکن اگر عورت جسمانی طور پر کمزور ہے یا پھر اسے کثرت امراض لاحق ہیں اورہر سال اسے حمل ضرر دیتا ہے اوربرداشت نہيں ہوتا تواس حالت میں وہ معذور ہے، توپھر اوربات ہے لیکن اس میں بھی اسے خاوند کی اجازت کے ساتھ منع حمل کے لیے کچھ استعمال کرنا ہوگا، اوراس کے استعمال میں اسے کوئی ضرر نہ ہوتو پھر وگرنہ وہ اس حالت میں بھی استعمال نہیں کرسکتی ۔
لہٰذا اسی لیے شریعت اسلامیہ نے یہ مشروع کیا ہے کہ اس عورت اورلڑکی سے شادی کی جائے جوزيادہ بچے جننے والی ہو اورمحبت بھی زيادہ کرنے والی ہو، یعنی ان عورتوں سے شادی کرو جوکثرت ولادت میں معروف ہیں تا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کواپنی امت کی کثرت پر دوسری امتوں کے مقابلہ میں فخر حاصل ہوسکے، اورمسلمانوں کی تعداد بھی زيادہ ہو۔ (فتاویٰ منار الاسلام 3 / 784)
واللہ اعلم بالصواب