کیا ساس کی خدمت کرنا بہو کی ذمہ داری ہے

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ کیا ساس کی خدمت کرنا بہو کی ذمہ داری ہے ؟

408 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    میری بہن انسان کے لئے دنیا میں اسلام کے بعد والدین کا زندہ ہونا سب سے بڑی نعمت ہے اور ان کا خوشگوار ہونا سعادت مندی کی علامت ہے۔ بیوی کو چاہیے کہ وہ خاوند کی طرح اس کےوالدین کی خدمت میں کسی قسم کی کوتاہی کو روانہ رکھے، اگرچہ قرآن و حدیث میں ان کی خدمت کرنے کے متعلق کوئی صریح نص موجود نہیں ہے، تاہم ایسے واضح اشارات ضرور ملتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ بہو کو اپنے سسرال کی خدمت کرنا چاہیے اور یہ سسرا ل کا حق ہے ۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام سے ملاقات کےلئے تشریف لائے تو اس وقت حضرت اسماعیلؑ گھر میں موجود نہیں تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام واپسی کے وقت اپنے لخت جگر کو اپنی بہو کے متعلق طلاق دینے کا اشارہ فرماگئے تھے،ا س کی دیگر وجوہات میں سے ایک وجہ یہ تھی کہ اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مطالبہ کے باوجود ان کی خدمت نہیں کی تھی بلکہ ناشکری کا اظہار کرتے ہوئے انتہائی نازیبا کلمات کہے تھے۔ (صحیح بخاری ،ا لانبیاء:۳۳۶۵)

    اسی طرح حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے جب ایک بیوہ سے شادی کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کنواری سے شادی کرنے کی ترغیب دی ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے شوہر دیدہ کے انتخاب کی یہ وجہ بتائی کہ میرے والد گرامی غزوہ احد میں شہید ہوگئے ہیں اور پس ماندگان میں نو لڑکیا ں ہیں جن میں صرف تین شادی شدہ ہیں میں نہیں چاہتا کہ گھر میں ان جیسی کسی ناتجربہ کار کنواری کو لاؤں بلکہ میں نے تجربہ کار شوہر دیدہ سے شادی کی ہے تا کہ وہ ان کی کنگھی کرے اور ان کا ہر طرح سے خیال کرے رکھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی جذبات کی تصویب فرمائی۔ (صحیح بخاری ، المغازی:۴۰۵۲)

    اس حدیث سے معلوم ہوا ہے کہ خاوند اپنی بیوی سے اپنی بہنوں کی خدمت کراسکتا ہے تو والدین کا مقام بہنوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی دلائل دیے جاسکتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کےلئے جہاں یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے خاوند کی خدمت میں کوتاہی نہ کرے، وہاں اس بات کا بھی خیال رکھنا ہوگا کہ خاوند کےوالدین میرے حقیقی والدین کی طرح ہیں، لہٰذا ان کی خدمت کرنے کوبھی اپنے لئے سعادت خیال کرے۔ خاوند کو چاہیے کہ وہ افہام و تفہیم کے ذریعے ایسے کاموں کو سرانجام دے اور محبت و اتفاق کی فضا کو برقرار رکھتے ہوئے خود بھی والدین کی خدمت کرے اور اپنی بہو کو بھی یہ سعادت حاصل کرنے کے لئے پابند کرے۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں