کھانے کی ڈش حلیم یا دلیم

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن کی طرف سے ایک سوال کیا گیا ہے کہ کھانے کی ڈش کا نام حلیم رکھا جاسکتا ہے؟۔ کیونکہ حلیم یہ اللہ تعالیٰ کی صفت بھی ہے۔ اس کی وضاحت فرمائیں

1011 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! کچھ لوگوں کا پروپیگنڈہ ہوتا ہے کہ وہ اس طرح کے میسج عام کرتے رہتے ہیں، اور اس طرح کے میسجز میں عام لوگ تو کجا پڑھے لکھے بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ لیکن اس طرح کے میسجز کا علمیت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ کیونکہ جب سیاق وسباق کے ساتھ حلیم کا نام کسی ڈش کےلیے بولا جارہا ہوتا ہے تو اللہ کے نام کی طرف کسی کا بھی ذہن نہیں جاتا۔ اسی طرح جب سیاق وسباق کے ساتھ اللہ کی صفت حلیم بیان کی جارہی ہوتی ہے تو کسی کی بھی توجہ حلیم کی پلیٹ/ دیگ کی طرف نہیں جاتی۔

    مثال کے طور پر جب یہ کہا جا رہا ہوتا ہے کہ ان اللہ غفورحلیم کہ بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے والے اور بردبار ہیں۔ تو یہاں لفظ حلیم سن کر کسی صاحب عقل کے ذہن میں حلیم دیگ کا خیال نہیں آتا، بلکہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہی ذہن میں آتی ہے۔ اسی طرح جب کہا جاتا ہے کہ ایک پلیٹ حلیم لاؤ، تو یہاں لفظ حلیم سے کسی بھی ذی شعور کا ذہن اللہ تعالیٰ کی صفت کی طرف نہیں جاتا۔

    اس لیے ایک نام جو اللہ کے ناموں میں سے ہے اگر وہ نام کسی دوسری جگہ دوسرے کےلیے استعمال ہورہا ہے تو یہ کہنا ہی غلط ہے کہ یہ نام اللہ کا بھی ہے، بلکہ دوسرے کےلیے وہ نام استعمال نہیں ہورہا، جو اللہ کا نام ہے۔ بلکہ اس نام کی ایک الگ حیثیت ہے، جو اتفاق سے اس نام کے ساتھ مل گئی ہے۔

    باقی کسی بھی چیز کا وہ نام رکھنا جائز ہے جو شریعت کے مخالف نہ ہو۔

    مزید اردو زبان میں ”حلیم” ڈش کا نام ہے۔ اور عربی میں ”حلیم” اللہ عز وجل کا صفاتی نام ہے۔ اسی طرح کیا ڈش کانام لیتے ہوئے کوئی اس بات کا خیال دل میں لاتا ہے کہ میں اللہ تعالی کا صفاتی نام لے رہا ہو یا دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ کیا کوئی اللہ کا نام لینے کی نیت کرتا ہے ؟ یقینا نہیں (بلکہ کئی لوگوں کو تو اس چیز کا علم ہی نہیں کہ ”حلیم ” بھی اللہ تعالی کا صفاتی نام ہے) جب معاملہ ایسے ہی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ روایت ہمارے لئے فیصل ہے ۔

    عن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ قال سمعت النبی صلی اللہ علیہ و سلم یقول : انما الاعمال بالنیات ۔(بخاری)
    عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو کہتے ہوئے سنا : اعمال کا دارو مدار نیت پر ہے۔

    لہذا اگر کوئی شخص اس انداز سے لفظ ”حلیم” کو بولتا ہے اور اس نیت سے کہ یہ اللہ کا نام ہے اور میں اس کی اہانت کررہا ہوں (العیاذ باللہ ) تو یہ غلط حرام اور گناہ کبیرہ ہے، بلکہ اس کے ایمان جانے کا بھی خطرہ ہے۔ اور کوئی مسلمان ایسا بولے؟ یہ تو ناممکن بلکہ محال سے بھی کوسوں دور ہے۔

    لہذا کھانے کی ڈش جس کا نام حلیم ہے، وہ حلیم ہی ہے۔ اوراس ڈش کا صحیح نام بھی ”حلیم ” ہے، دلیم نہیں۔

    نوٹ:
    کیا کبھی ہم نے سوچا کہ اللہ کا نام حلیم، کریم، رحیم، جبار، قہار کیوں ہے؟ ظاہر ہے اللہ کا نام رحیم اس کی صفت رحیمیت کی وجہ سے کیونکہ اللہ اپنی مخلوق پر رحم کرتا ہے۔ اسی طرح اگر یہی صفت کسی انسان میں پائی جائے کہ وہ انسانوں پر رحم کرتا ہو تو کیا اس کےلیے نیا لفظ ایجاد کیا جائے گا؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ اس کےلیے بھی یہی کہا جائے گا کہ فلاں شخص تو بہت رحیم ہے۔ اس کو ایک مثال سے یوں سمجھیں کہ

    اللہ کی سماعت لا محدود ہے۔ ( اور جب ہم اللہ کے لیے سمیع کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو خود بخود اس کے معانی لا محدود ہو جاتے ہیں)
    انسان کی سماعت محدود ہے( اور جب ہم انسان کے لیے سمیع کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو خود بخود اس کے معانی محدود ہو جاتے ہیں)

    اسی طرح جب ہم کسی شخص کےلیے رحیم کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس کا معنیٰ ومفہوم اور اس کی محدودیت اس شخص کے اعتبار سے ہی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحیمیت کے اعتبار سے نہیں۔

    لہذا جب ہم حلیم کو بطور اللہ تعالیٰ کی صفت کے استعمال کرتے ہیں تو سوچ حلیم دیگ کی طرف نہیں جاتی اور جب حلیم کا لفظ حلیم کی دیگ کےلیے استعمال کرتے ہیں تو سوچ رب تعالیٰ کی صفت کی طرف نہیں جاتی۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں