شادیوں پہ خواتین کا تھال بجانا

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ شادیوں پہ خواتین تھال اور پھر ساتھ شادیوں کے گیت گا سکتی ہیں؟

297 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! خوشی کے موقع دف بجانے اور پھر گیت گانے کا ثبوت احادیث سے ملتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ربیع بنت معوذ بیان کرتی ہیں کہ جب میری رخصتی عمل میں آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور میرے پاس اس طرح آ کر بیٹھ گئے جیسے تو میرے پاس بیٹھا ہے (راوی سے خطاب ہے) ۔تب چھوٹی بچیاں (خوشی کے طور پر) دف بجا کر شہداے بدر کا مرثیہ پڑھنے لگیں۔ اچانک ان میں سے ایک بچی نے کہا:

    وَفِیْنَا نَبِیٌّ یَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ
    ہمارے اندر ایسے نبی ہیں جو کل کی بات جانتے ہیں۔

    نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر فرمایا:

    دَعِي هَذِهِ وَقُولِي بِالَّذِي كُنْتِ تَقُولِينَ۔ ( بخاری:5147)
    اس کو چھوڑ اور وہی کہہ جو پہلے کہہ رہی تھی۔

    اس واقعہ اور اسی طرح دیگر احادیث سےدو باتوں کا اثبات ہوتا ہے۔ ایک دف بجانے کا اور دوسرا ایسے گیتوں اور شعروں کے گانے اور پڑھنے کا جن میں خاندانی شرف ونجابت کا اور آباء و اجداد کے قومی مفاخر کا تذکرہ ہو، لیکن ساری متعلقہ صحیح احادیث سے ان دونوں باتوں کی جو نوعیت معلوم ہوتی ہے، اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے:

    1۔ خاص موقعوں پر دف بجایا جا سکتا ہے اور قومی گیت گایا جا سکتا ہے، جیسے شادی بیاہ کے موقعے پر یا عید وغیرہ پر، جس کا مقصد نکاح کا اعلان کرنا اور خوشی کا اظہار کرنا ہے، تاکہ شادی خفیہ نہ رہے۔
    2۔ یہ کام صرف چھوٹی یعنی نابالغ بچیاں کر سکتی ہیں، بالغ عورتوں کو ان کاموں کی اجازت نہیں ہے اور نہ مردوں ہی کو اس کی اجازت ہے۔
    3۔ یہ کام نہایت محدود پیمانے پر ہو۔ محلے کی یا خاندان اور قبیلے کی بچیوں کو دعوت دے کر جمع نہ کیاجائے۔
    4۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ ان کاموں کی صرف اجازت ہے۔
    5۔ اور یہ مسلمہ اُصول ہے کہ ایک جائز کام، حدود و ضوابط کے دائرے میں نہ رہے اور اس کا ارتکاب بہت سے محرمات و منہیات تک پہنچا دے تو ایسی صورتوں میں وہ جائز کام بھی ناجائز اور حرام قرار پائے گا۔

    اب جو قابل غور بات ہے وہ یہ کہ اس وقت مسلمانوں کی اپنے مذہب سے وابستگی اور اس پر عمل کرنے کی جو صورت حال ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ اس لیے شادی بیاہ کے موقعوں پر وہ اللہ اورسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کو بالکل پس پشت ڈال دیتے ہیں اور محرمات ومنہیات کا نہایت دیدہ دلیری سے ارتکاب کرتے ہیں۔ شادیوں میں (الاقلیل) نوجوان بچیوں کا سرعام ناچنا گانا، ویڈیو اور مووی فلمیں بنانا، بے پردگی اور بے حیائی کا ارتکاب، بینڈ باجے، میوزیکل دھنیں اور میوزیکل شو، آتش بازی وغیرہ یہ سب غیروں کی نقالی اور اسلامی تہذیب وروایات کے یکسر خلاف ہیں۔ اسلام سے ان کا نہ کوئی تعلق ہے اور نہ ہو ہی سکتا ہے۔

    یہ صورت حال اس امر کی تائید کرتی ہے کہ موجودہ حالات میں دف بجانے اور قومی گیت گانے سے بھی احتراز کرنا چاہئے، کیونکہ کوئی بھی شریعت کی بتائی ہوئی حد تک محدود نہیں رہتا اور محرمات تک پہنچے بغیر کسی کی تسلی نہیں ہوتی۔ بنا بریں اسلام کے مسلمہ اصول سَدًّا لذریعة کے تحت یہ جائز کام بھی اس وقت ممنوع ہی قرار پائے گا جب تک قوم اپنی اصلاح کرکے شریعت کی پابند نہ ہو جائے اور شریعت کی حد سے تجاوز کرنے کی عادت اور معمول کو ترک نہ کر دے۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں