مسلمان کا اہل کتاب سے شادی کرنا

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن کا سوال ہے کہ کیا اہل کتاب کے مرد یا اہل کتاب کی کسی عورت سے مسلمان مرد یا مسلمان عورت کی شادی کی جاسکتی ہے؟

1041 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! جمہور اہل علم کے نزدیک اہل کتاب کی عورتوں سے مسلمان مردوں کا نکاح کرنا جائز ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کافرمان ہے

    الْیَوْمَ احِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبَاتُ وَطَعَامُ الَّذِیْنَ اوتُواْ الْکِتَابَ حِلّ لَّکُمْ وَطَعَامُکُمْ حِلُّ لَّہُمْ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِیْنَ اوتُواْ الْکِتَابَ مِن قَبْلِکُم۔(سورۃ المائدۃ:5)
    آج تمہارے لئے تمام پاک چیزیں حلال کردی گئی ہیں اور اہل کتاب کا کھانا تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لئے’ نیز مومن پاکدامن عورتیں تمہارے لئے حلال ہیں اور ان لوگوں کی پاکدامن عورتیں بھی جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔

    اس آیت مبارکہ میں اہل کتاب کی عورت سے شادی کرنےکےلیے اللہ تعالیٰ دو بنیادی شرائط ذکر کی ہیں
    1۔ وہ عورت واقعی اہل کتاب میں سے ہو یعنی محض نام کا اہل کتاب نہ ہو جیسا کہ موجودہ دور کے یہودونصاریٰ اہل کتاب ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر کتاب سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ بلکہ وہ تو اپنے دین سے بیزار اور باغی ہیں۔ایسی صورت میں انہیں اہل کتاب میں شمار کرنا محل نظر ہے۔
    2۔ وہ عورت پاکدامن ہو اور آج کل اکثر اہل کتاب کی عورتوں میں یہ شرط مفقود ہے۔

    آیت کریمہ کے آخری میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے

    وَمَن یَکْفُرْ بِالِایْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہُ وَہُوَ فِیْ الآخِرَۃ مِنَ الْخَاسِرِیْن
    اور جو ایمان کے ساتھ کفر کرے،اس کے عمل برباد ہوگئے اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔

    اس سے یہ تنبیہ مقصود ہے کہ اگر ایسی عورت سے نکاح کرنے میں ایمان کے ضیاع کا اندیشہ ہو تو بہت ہی خسارہ کا سودا ہوگااور آج کل اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح میں ایمان کو جو شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں وہ محتاج بیاں نہیں۔یہ بات ہر مسلمان کو معلوم ہے کہ ایمان کا بچانا فرض ہے۔ لہذا ایک جائز کام کےلیے فرض کو خطر ے میں نہیں ڈالاجاسکتا۔اس لئے اس کا جواز بھی اس وقت تک ناقابل عمل رہے گاجب تک کہ مذکورہ دونوں شرطیں نہ پائی جائیں۔

    لیکن مسلمان لڑکی کےلیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کافرمرد(عیسائی، یہودی) سے نکاح کرے۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں