ہنسی مذاق میں طلاق اوراس کا حکم
سوال
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سوال:
بہن نے سوال کیا ہے کہ اگر باتوں باتوں کے دوران بیوی اپنے خاوند کو کہہ دے کہ اگرمیں واقعی اچھی نہیں تو آپ مجھے چھوڑ کیوں نہیں دیتے، اس کے جواب میں ہنستے مسکراتے خاوند یہ کہہ دے کہ جاؤ تمہیں چھوڑ دیا۔ اور پھر وہ روٹین کے مطابق ایک دوسرے کے ساتھ رہنا بھی شروع
کردیں تو خاوند کے ان الفاظ کا نکاح پرکچھ اثر ہوگا کہ نہیں؟
جواب ( 1 )
جواب:
بہن! جب خاوند بیوی کو طلاق دیتا ہے تو دو طرح کے الفاظ استعمال کرتا ہے
صریح الفاظ:
صریح الفاظ کا مطلب ہے کہ واضح اور دو ٹوک انداز میں طلاق دینے کے الفاظ استعمال کرنا۔ اگرخاوند نے صریح الفاظ کے ساتھ طلاق دی، چاہے غصے میں دی یا ہنسی مذاق میں۔ تو طلاق واقع ہوجائے گی۔ اس صورت میں انسان کی نیت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ ہاں اگر بھول کر یا غیرارادی طور پراس کے منہ سے طلاق کے صریح الفاظ نکل گئے تو پھر طلاق واقع نہیں ہوگی۔
کنایۃ الفاظ:
اس سے مراد ایسے الفاظ ہیں جو طلاق کے لیے صریح نہ ہوں، بلکہ اشارہ کنایۃ سے کام لیا گیا ہو، جیسا کہ صورت مسؤلہ میں خاوند نے استعمال کیے ہیں۔ تو اس قسم کے الفاظ استعمال کرتے وقت انسان کی نیت کو دیکھاجاتا ہے اگر نیت طلاق کی ہے تو طلاق واقع ہوگی۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے
حَدَّثَنَا الحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا الوَلِيدُ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: سَأَلْتُ الزُّهْرِيَّ، أَيُّ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعَاذَتْ مِنْهُ؟ قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: أَنَّ ابْنَةَ الجَوْنِ، لَمَّا أُدْخِلَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدَنَا مِنْهَا، قَالَتْ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ، فَقَالَ لَهَا: لَقَدْ عُذْتِ بِعَظِيمٍ، الحَقِي بِأَهْلِكِ۔(بخاری:5254)
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا ، کہا ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا ، کہا ہم سے امام اوزاعی نے بیان کیا ، کہا کہ میں نے زہری سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کن بیوی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پناہ مانگی تھی ؟ انہوں نے بیان کیا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ جون کی بیٹی ( امیمہ یا اسماء) جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں (نکاح کے بعد ) لائی گئیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے تو اس نے یہ کہہ دیا کہ میں تم سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ تم نے بہت بڑی چیز سے پناہ مانگی ہے ، اپنے میکے چلی جاؤ ۔
چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیت طلاق کی تھی، لہٰذا طلاق واقع ہوگئی۔ لیکن جب یہی الفاظ ’’الحَقِي بِأَهْلِكِ‘‘حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو کہے تھے اور آپ رضی اللہ عنہ کا ارادہ طلاق دینے کا نہیں تھا۔ تو طلاق واقع نہیں ہوئی تھی۔ (بخاری:4418)
صورت مسؤلہ میں خاوند ان الفاظ کے استعمال کے بعد دونوں کا روٹین کے مطابق دوبارہ رہنا شروع کردینا ہی یہ ثابت کرتا ہے کہ خاوند نے بغیرطلاق کی نیت کے بیوی کی ہاں میں ہاں ملانے کےلیے یہ الفاظ استعمال کیے ہیں۔ لہٰذا ان الفاظ کا نکاح پر کوئی اثر نہیں ہوا۔
واللہ اعلم بالصواب