تراویح کی ابتدا کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رکھی؟

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تراویح کا آغاز فرمایا؟ کیا مروجہ طریقہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پہلے رائج تھا یا نہیں؟ اس بارے تفصیل بتائیں

887 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:
    بہن! نماز تراویح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فعلی، قولی اور تقریری سنت ہے۔ فعلی سنت ہونے کی دلیل یہ ہے کہ

    حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى قَالَ قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِي الْمَسْجِدِ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَصَلَّى بِصَلَاتِهِ نَاسٌ ثُمَّ صَلَّى مِنْ الْقَابِلَةِ فَكَثُرَ النَّاسُ ثُمَّ اجْتَمَعُوا مِنْ اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ أَوْ الرَّابِعَةِ فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ قَدْ رَأَيْتُ الَّذِي صَنَعْتُمْ فَلَمْ يَمْنَعْنِي مِنْ الْخُرُوجِ إِلَيْكُمْ إِلَّا أَنِّي خَشِيتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْكُمْ قَالَ وَذَلِكَ فِي رَمَضَان ۔ (صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا باب الترغیب فی قیام رمضان و ھو التراویح)
    حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات مسجد میں نماز(تراویح) پڑھی تو کچھ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقتداء میں نماز پڑھنی شروع کر دی۔ پھر دوسری شب نماز پڑھی تو اور زیادہ لوگ جمع ہو گئے، پھر تیسری یا چوتھی رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف نہیں لائے۔ پھر جب صبح ہوئی تو فرمایا :میں نے دیکھا جو تم کر رہے تھے، مجھے تمہارے پاس آنے سے صرف یہ خوف مانع تھا کہ کہیں تم پر (نماز تراویح) فرض نہ ہو جائے۔ اور یہ رمضان کا واقعہ تھا۔

    امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے باجماعت تراویح کے بارے میں مندرجہ ذیل حدیث صحیح سند کے ساتھ بیان کی ہے:

    حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنِي نُعَيْمُ بْنُ زِيَادٍ أَبُو طَلْحَةَ الْأَنْمَارِيُّ أَنَّهُ سَمِعَ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ يَقُولُ عَلَى مِنْبَرِ حِمْصَ قُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ ثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ الْأَوَّلِ ثُمَّ قُمْنَا مَعَهُ لَيْلَةَ خَمْسٍ وَعِشْرِينَ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ ثُمَّ قَامَ بِنَا لَيْلَةَ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنْ لَا نُدْرِكَ الْفَلَاحَ قَالَ وَكُنَّا نَدْعُو السُّحُورَ الْفَلَاحَ۔ (مسند احمد بن حنبل، مسند الکوفیین حدیث نعمان بن بشیر عن النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم)
    نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے منبر پر کھڑے ہو کر بیان کیا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کی تائیسویں کو رات کے پہلے ایک تہائی حصہ تک قیام کیا۔ پھر پچیسویں کو آدھی رات تک قیام کیا۔ پھر ستائیسویں کو نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ ہمیں گمان ہوا کہ ہم فلاح کو نہیں پا سکیں گے اور ہم لوگ سحری کو فلاح کہا کرتے تھے۔

    نماز تراویح کے فعلی سنت ہونے کی دلیل سنن ابی داؤد کی ایک صحیح حدیث ہے، جس سے معلوم ہے کہ اس کا سنت ہونا فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہے

    حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَمَضَانَ فَلَمْ يَقُمْ بِنَا شَيْئًا مِنْ الشَّهْرِ حَتَّى بَقِيَ سَبْعٌ فَقَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ فَلَمَّا كَانَتْ السَّادِسَةُ لَمْ يَقُمْ بِنَا فَلَمَّا كَانَتْ الْخَامِسَةُ قَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ شَطْرُ اللَّيْلِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ نَفَّلْتَنَا قِيَامَ هَذِهِ اللَّيْلَةِ قَالَ فَقَالَ إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا صَلَّى مَعَ الْإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ حُسِبَ لَهُ قِيَامُ لَيْلَةٍ قَالَ فَلَمَّا كَانَتْ الرَّابِعَةُ لَمْ يَقُمْ فَلَمَّا كَانَتْ الثَّالِثَةُ جَمَعَ أَهْلَهُ وَنِسَاءَهُ وَالنَّاسَ فَقَامَ بِنَا حَتَّى خَشِينَا أَنْ يَفُوتَنَا الْفَلَاحُ قَالَ قُلْتُ وَمَا الْفَلَاحُ قَالَ السُّحُورُ ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِقِيَّةَ الشَّهْرِ۔ (سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب فی قیام شھر رمضان)
    ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ کچھ قیام نہ کیا حتٰی کہ (رمضان ختم ہونے میں) سات دن رہ گئے (یعنی تائیسویں رمضان کی رات کو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ قیام کیا (یعنی نماز تراویح پڑھی)۔ یہاں تک کہ رات کا ایک تہائی حصہ گزر گیا۔ پھر جب چھٹی رات تھی (یعنی رمضان ختم ہونے میں چھے دن رہ گئے) توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ قیام نہیں کیا۔ پھر جب پانچویں رات تھی ( پانچ دن باقی رہ گئے ) تو ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کاش آپ اس رات ہمیں اور بھی نفل پڑھاتے۔ فرمایا: جب آدمی امام کے ساتھ اس کے فارغ ہونے تک نماز پڑھتا ہے تو اس کے لیے پوری رات کے قیام کا ثواب شمار کیا جاتا ہے۔ پھر چوتھی رات کو قیام نہیں کیا۔ پھر جب تیسری رات تھی (یعنی رمضان کی ستائیسویں) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں، ازواج مطہرات اور دوسرے لوگوں کو جمع کیا اور انہیں نماز پڑھائی یہاں تک کہ ہمیں فلاح کے فوت ہونے کا ڈر پیدا ہو گیا۔ جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا فلاح کیا چیز ہے؟ تو انہوں نے فرمایا سحری ۔ پھر اس کے بعد کی راتوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (جماعت کےساتھ) قیام نہیں کیا۔

    نماز تراویح کے فعلی اور قولی سنت ہونے کے ثبوت کے بعد یہ نماز تقریری سنت بھی ہے۔ تقریر سے مراد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی کام کیا گیا ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر خاموشی اختیار فرمائی ہو اور اس سے منع نہ فرمایا ہو۔ قول وفعل کی طرح تقریر بھی کسی عمل کے سنت ہونے کی دلیل ہے۔ جیسا کہ بیان ہو چکا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح کی جماعت تو کرائی لیکن اس پر ہمیشگی اختیار نہیں کی اس خوف سے کہ کہیں امت پر فرض نہ کر دی جائے۔ لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے طور پر مسجد نبوی میں جماعت کے ساتھ تراویح پڑھتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں منع نہیں کیا۔ اس بات کی تفصیل امام احمد بن حنبل نے صحیح سند کے ساتھ یوں بیان کی ہے:

    حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ التَّيْمِيُّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ كَانَ النَّاسُ يُصَلُّونَ فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ بِاللَّيْلِ أَوْزَاعًا يَكُونُ مَعَ الرَّجُلِ شَيْءٌ مِنْ الْقُرْآنِ فَيَكُونُ مَعَهُ النَّفَرُ الْخَمْسَةُ أَوْ السِّتَّةُ أَوْ أَقَلُّ مِنْ ذَلِكَ أَوْ أَكْثَرُ فَيُصَلُّونَ بِصَلَاتِهِ ۔ (مسند احمد بن حنبل مسند باقی الانصار، باقی المسند السابق)
    نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رمضان کی راتوں میں لوگ مسجدنبوی میں الگ الگ گروہوں کی صورت میں نماز پڑھتے تھے۔ ہوتا یوں تھا کہ کسی آدمی کو قرآن کا کچھ حصہ یاد ہوتا تو پانچ چھے یا اس سے کم وبیش آدمی اس کے ساتھ ہو جاتے اور اس کی اقتدا میں نماز ادا کرتے۔

    لہٰذا باجماعت تراویح کا اثبات فعلاً، قولاً اورتقریراً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ باقی جہاں تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بات ہے تو حدیث میں آتا ہے۔

    عن عبدالرحمن بن عبدالقاری؛ انہ قال:خرجت مع عمر بن الخطاب لیلة فی رمضان الیٰ المسجد ،فاذاالناس اوزاع متفرقون، یصلی الرجل لنفسہ، ویصلی الرجل،فیصلی بصلوتہ ا لرھط، فقال عمر:اٴِنِّی اٴَریٰ لو جمعت ھٰولاء علی قاریٴ واحد لکان امثل، ثم عزم فجمعھم علیٰ ابی بن کعب، ثم خرجت معہ لیلةاخریٰ، والناس یُصلُّون بصلاة قارئھم ،قال عمر:نعم البدعةھذه۔ (بخاری:1906)
    عبدالرحمن بن عبد القاری سے منقول ہے کہ ایک روز میں رمضان المبارک کی شب میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد کی طرف گیا، تو دیکھا کہ لوگ متفرق متفرق اپنی نمازیں ادا کررہے ہیں، کچھ حضرات ایک جگہ اجتما ع کرکے نماز ادا کررہےہیں، تو کوئی مسجد کے ایک گوشہ میں نماز پڑھ رہا ہے، جب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس حا لت کو دیکھا توکہنے لگے : اگر یہی حضرات کسی ایک فرد کے پیچھے نماز پڑھتے تو کتنا اچھا ہوتا، اس کے بعد اس بارے میں فکر کرکے دستور دیا کہ تمام لوگ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پیچھے یہ نماز با جماعت ادا کریں، کچھ دنوں کے بعد ہم لوگ جب ایک شب مسجد میں آئے تو دیکھا کہ تمام نمازی ایک پیش نماز کے پیچھے نمازیں پڑھ رہے ہیں، اس وقت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: کتنی اچھی یہ بدعت ہے۔

    نوٹ:
    ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ تراویح کا آغاز ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیا، بلکہ آغاز تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کرچکے تھے فرداً بھی اور جماعتاً بھی۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت کیوں چھوڑی؟ اس کی وجہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی کہ کہیں فرض نہ ہوجائے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر فرض ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جماعت کے ساتھ تراویح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو پڑھاتے رہتے۔ باقی جہاں تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بات ہے تو یوں کہا جائے گا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اہتمام کیا، ایک عمل کو منظم کیا۔ اسے ایجاد نہیں کیا۔کیونکہ دین میں کوئی کام ایجاد کرنا بدعت ہوتا ہے۔ اور کسی صحابی اور وہ بھی خلیفہ دوئم سے دین میں بدعت کی ایجاد کا تصور ہی محال ہے۔ باقی جو آپ رضی اللہ عنہ نے ’’نعم البدعۃ ہذہ‘‘ کے الفاظ بولے، تو یہاں بدعت کا لغوی معنیٰ مراد ہے شرعی نہیں۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں