خون نکلنے سے وضوء کا ٹوٹنا

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ کیا خون نکلنے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے؟۔

678 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن نواقض وضوء (جن چیزوں سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے) ان کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے، لیکن جو چیزیں دلیل سے ثابت ہیں وہ یہ ہیں

    1۔ ہر وہ چیز جو قبل یا دبر سے خارج ہو، اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
    2۔ ایسی گہری نیند سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے جس میں سوئے ہوئے انسان کو اپنا بے وضو ہونا معلوم نہ ہو سکے، لیکن اگر نیند ایسی ہو کہ اگر وہ بے وضو ہوجائے تو اسے معلوم ہو جائے تو اس صورت میں وضو نہیں ٹوٹتا۔
    3۔ جب انسان اونٹ یا اونٹنی کا گوشت کھائے تو اس سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے، خواہ وہ کچا گوشت کھائے یا پکا ہوا۔

    باقی جہاں تک کوئی چیز لگنے سے جسم کے کسی حصے سے خون کے نکلنے سے وضوء ٹوٹنے یا نہ ٹوٹنے کی بات ہے تو راجح مسلک یہی ہے کہ وضوء نہیں ٹوٹتا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مسئلہ پر ترجمۃ الباب قائم کیا کہ

    وقول الله تعالى ‏{‏أو جاء أحد منكم من الغائط‏}‏ وقال عطاء فيمن يخرج من دبره الدود أو من ذكره نحو القملة يعيد الوضوء‏.‏ وقال جابر بن عبد الله إذا ضحك في الصلاة أعاد الصلاة، ولم يعد الوضوء‏.‏ وقال الحسن إن أخذ من شعره وأظفاره أو خلع خفيه فلا وضوء عليه‏.‏ وقال أبو هريرة لا وضوء إلا من حدث‏.‏ ويذكر عن جابر أن النبي صلى الله عليه وسلم كان في غزوة ذات الرقاع فرمي رجل بسهم، فنزفه الدم فركع وسجد، ومضى في صلاته‏.‏ وقال الحسن ما زال المسلمون يصلون في جراحاتهم‏.‏ وقال طاوس ومحمد بن علي وعطاء وأهل الحجاز ليس في الدم وضوء‏.‏ وعصر ابن عمر بثرة فخرج منها الدم، ولم يتوضأ‏.‏ وبزق ابن أبي أوفى دما فمضى في صلاته‏.‏ وقال ابن عمر والحسن فيمن يحتجم ليس عليه إلا غسل محاجمه‏۔
    اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جب تم میں سے کوئی قضاء حاجت سے فارغ ہو کر آئے تو تم پانی نہ پاؤ تو تیمم کر لو۔ عطاء کہتے ہیں کہ جس شخص کے پچھلے حصہ سے ( یعنی دبر سے ) یا اگلے حصہ سے ( یعنی ذکر یا فرج سے ) کوئی کیڑا یا جوں کی قسم کا کوئی جانور نکلے اسے چاہیے کہ وضو لوٹائے اور جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ جب (آدمی ) نماز میں ہنس پڑے تو نماز لوٹائے اور وضو نہ لوٹائے اور حسن ( بصری) نے کہا کہ جس شخص نے ( وضو کے بعد ) اپنے بال اتروائے یا ناخن کٹوائے یا موزے اتار ڈالے اس پر وضو نہیں ہے۔ حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ وضو حدث کے سوا کسی اور چیز سے فرض نہیں ہے اور حضرت جابر سے نقل کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذات الرقاع کی لڑائی میں ( تشریف فرما ) تھے۔ ایک شخص کو تیر مارا گیا اور اس ( کے جسم) سے بہت خون بہا مگر اس نے پھر بھی رکوع اور سجدہ کیا اور نماز پوری کر لی اور حسن بصری نے کہا کہ مسلمان ہمیشہ اپنے زخموں کے باوجود نماز پڑھا کرتے تھے اور طاؤس، محمد بن علی اور اہل حجاز کے نزدیک خون ( نکلنے ) سے وضو ( واجب ) نہیں ہوتا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ( اپنی) ایک پھنسی کو دبا دیا تو اس سے خون نکلا۔ مگر آپ نے ( دوبارہ ) وضو نہیں کیا اور ابن ابی اوفیٰ نے خون تھوکا۔ مگر وہ اپنی نماز پڑھتے رہے اور ابن عمر اور حسن رضی اللہ عنہم پچھنے لگوانے والے کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ جس جگہ پچھنے لگے ہوں اس کو دھولے، دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت نہیں۔

    جس سے ثابت ہوتا ہے کہ خون نواقض وضوء نہیں ہے۔

    مزید ابوداؤد، ابن خزیمہ، حاکم اور بیہقی میں یہ حدیث بھی وارد ہے کہ

    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گھاٹی مین اتر کر صحابہ سے کہا، آج رات کون ہمارا پہرہ دے گا ؟ تو مہاجرین وانصار میں سے ایک ایک آدمی کھڑا ہو گیا پھر انہوں نے گھاٹی کے دھانے پر رات گزاری، انہوں نے رات کا وقت پہرے کے لئے تقسیم کر لیا لہٰذا مہاجر سو گیا اور انصاری کھڑا ہو کر نماز پڑھنے لگا۔ اچانک دشمن کے ایک آدمی نے آ کر انصاری کو دیکھا اور اسے تیر مار دیا۔ انصاری نے تیر نکال دیا اور اپنی نماز جاری رکھی، پھر اس نے دوسرا تیر مارا تو انصاری نے پھر اسی طرح کیا، پھر اس نے تیسرا تیر مارا تو اس نے تیر نکال کر رکوع اور سجدہ کیا اور اپنی نماز مکمل کی۔ پھر اس نے اپنے ساتھی کو جگایا جب اس نے اسے ایسی (خون آلود) کی حالت میں دیکھا تو کہا جب پہلی مرتبہ اس نے تمہیں تیر مارا تو تم نے مجھے کیوں نہیں جگایا ؟ تو اس نے کہا میں ایک سورت کی تلاوت کر رہا تھا جسے کاٹنا (یعنی تلاوت چھوڑنا) میں نے پسند نہیں کیا۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں