صرف نام کے مسلمان

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ ہمارے ملک میں جو ان پڑھ طبقہ ہے جن کی اکثریت نماز پڑھنا بالکل نہیں جانتی، اور وہ مسلم ہی کہلاتے ہیں اور ان کو مذہب سے کوئی دلچسپی نہیں اور نہ ہی وہ سیکھتے ہیں تو ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟

254 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! اس حوالے سے سب سے پہلے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ایسے لوگوں کی تعلیم وتربیت کا بندوبست کریں۔ لیکن تعلیم وتربیت وغیرہ کے صحیح بندوبست کے باوجود بھی صرف لاالہ الا اللہ محمدرسول اللہ تو پڑھتے ہیں لیکن کلمہ کے تقاضے پورے نہیں کرتے۔ مذہب اور اس کی تعلیمات سے کوئی لگاؤ نہیں رکھتے، نہ احکامات کو مانتے اور اس پر عمل کرتے ہیں تو یہ لوگ مسلمان کہلانے کے لائق نہیں۔ اور نہ انہیں مسلمان سمجھا جائے۔ کیونکہ اسلام کی بنیاد کے حوالے سے حدیث ہے کہ

    حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، قَالَ: أَخْبَرَنَا حَنْظَلَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ۔ (بخاری:8)
    ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے یہ حدیث بیان کی۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں اس کی بابت حنظلہ بن ابی سفیان نے خبر دی۔ انھوں نے عکرمہ بن خالد سے روایت کی انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے۔ اول گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔

    لہٰذا جب بنیاد ہی نہیں، تو مسلمان ہی نہیں۔

    نوٹ:
    1۔ یہ جان لیجیے کہ لا الہ الا اللہ کا تقاضا ہے کہ اللہ کے علاوہ ہر چیز کی عبادت کو چھوڑ دیاجائے، اورعبادت کے سارے کام اللہ کے لیے شروع کردئیے جائیں، اب اگر کوئی لا الہ الا اللہ کہتا ہو لیکن عبادت کے کچھ کام غیروں کے لیے بھی کرتا ہو مثلاً کسی غیر کو مشکل کشا سمجھتا ہے، حاجت روا مانتاہے، کسی انسان، پیر فقیر کی قبروں پر سجدے کرتا ہے، ان کے لیے نذریں مانناہے، ان کی قبروں پر جانورذبح کرتا ہے تو گویا اس نے لا الہ اللہ کے تقاضا کو پورا نہیں کیا ۔
    2۔ لا الہ الا اللہ کا اقرار کب صحیح ہوگا ؟ کب مانا جائے گا کہ ایک آدمی لا الہ الا اللہ کو صحیح طریقے سے اپنا رہا ہے، اس کی شرطیں کیا ہيں؟ اس میں چھ شرطوں کاپایاجانابہت ضروری ہے :
    ٭ علم : یعنی بولنے والے کو اس کلمہ کا معنی پتہ ہو اوراس کا جو تقاضا ہے کہ ”اللہ کے علاوہ ہرایک کی عبادت ترک کردینا “ اسے وہ جانتا ہو۔ فاعلم أنہ لا الہ الا اللہ ”جان لو کہ اللہ کے علاوہ اورکوئی معبودبرحق نہیں ۔ “
    ٭ یقین: یعنی بولنے والے کے دل میں اس کے تعلق سے ذرا برابر شک نہ ہو، یا لا الہ الا اللہ کا جو تقاضا ہے کہ ”اللہ کے علاوہ ہرایک کی عبادت ترک کردینا ‘ اس کے تعلق سے اس کے دل میں کسی طرح کا شک نہ ہو۔ انما المو منون الذین آمنوا باللہ ورسولہ ثم لم یرتابوا (الحجرات 15) بیشک مومن وہ ہیں جو اللہ پر اوراس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں پھر اس میں کسی طرح کا شک نہیں کرتے ۔
    ٭ اخلاص : یعنی اللہ کی رضا چاہتے ہوں اس کلمہ کے ذریعہ، اللہ تعالی نے فرمایا: وما امروا الا لیعبدوا اللہ مخلصین لہ الدین (البینة 5) ان کو یہی حکم ملا تھا کہ دین کو خالص کرکے اس کی عبادت کریں ۔
    ٭ سچائی: یعنی اپنے دل کی سچائی سے اس کی گواہی دے، اس کی زبان اس کے دل کی موافقت کر رہی ہو۔ ومن الناس من یقول آمنا باللہ وبالیوم الآخروماھم بمؤمنین ہے۔ (البقرة 8) لوگوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پراوریوم آخرت پر ایمان لائے ہیں حالانکہ وہ مومن نہیں ہیں ۔
    ٭محبت: یعنی اس کلمہ سے محبت ہو، اس کے پڑھنے والے سے محبت ہو، اورجو لوگ اس کا انکار کرتے ہیں اوراہل ایمان سے بغض رکھتے ہیں ان سے بغض ہو۔ والذین آمنوا اشد حبا للہ ۔ ایمان والے اللہ سے شدید محبت رکھنے والے ہوتے ہیں ۔
    ٭ قبول: قبول کا مطلب ہے کسی چیز کودل کی خوشی سے لے لینا، اوریہاں مراد ہے کہ کلمہ توحید اوراس کا جو تقاضا ہے اسے سراورآنکھوں سے قبول کرلینا اوران میں سے کسی چیز کا انکار نہ کرنا۔ اللہ پاک نے ایسی قوم کی خبر دی ہے جس نے لا الہ الا اللہ کہنے سے انکار کردیا تو یہ اس کی ہلاکت کا سبب بنا: انا کذلک نفعل بالمجرمین انھم کانوا اذا قیل لھم لا الہ الا اللہ یستکبرون (الصافات 34 ۔ 35) ہم مجرموں کو ایسا ہی بدلہ دیاکرتے ہیں، جب ان سے کہا جاتا تھا کہ لا الہ الا اللہ کہہ لو تو تکبر کرتے تھے ۔
    ٭ تابعداری اوراطاعت: یعنی لا الہ الا اللہ اوراس کے تقاضے کا ظاہری اورباطنی طورپر تابع ہوجائے۔ مطلب یہ کہ اللہ نے جن چیزوں کا حکم دیا ہے انہیں کرنے لگ جائے اورجن چیزوں سے روک دیا ہے ان سے رک جائے ۔ وأنیوا الی ربکم وأسلموا لہ من قبل أن یاتیکم العذاب ثم لا تنصرون۔(الزمر54) اوراپنے رب کی طرف رجو ع کرواوراس کے تابعداربن جاؤ، اس سے پہلے کہ تم پر عذاب آجائے اور پھر تمہاری مدد نہ کی جاسکے ۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں