ایک طلاق کے بعد دوسری طلاق اور درمیانی وقفہ

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ ایک مجلس میں دی گئی یکبارگی تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوتی ہے، لیکن اگرایک مجلس میں تو یکبارگی تین طلاقیں نہیں دی گئی، لیکن وقفے وقفے سے تین طلاقیں دی گئیں ہیں۔ تو یہ وقفہ کتنا ہونا چاہیے؟ اس بارے شرعی راہنمائی فرمائیں؟

437 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! طلا ق کے مسئلہ میں دو باتیں ہیں ایک یہ کہ یکبارگی ایک ہی مجلس میں تین طلاق دینا، دوسرا یہ کہ الگ الگ مجلس میں تین طلاق دینا۔ جب یکبارگی ایک ہی مجلس میں تین طلاق دی جائیں گی، تو وہ ایک ہی طلاق شمار ہوگی۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے۔

    أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: ” كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: إِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوا فِي أَمْرٍ قَدْ كَانَتْ لَهُمْ فِيهِ أَنَاةٌ، فَلَوْ أَمْضَيْنَاهُ عَلَيْهِمْ، فَأَمْضَاهُ عَلَيْهِمْ۔(مسلم:3673)
    معمر نے ہمیں ابن طاوس سے خبر دی، انہوں نے اپنے والد (طاوس بن کیسان) سے، انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں اور عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے (ابتدائی) دو سالوں تک (اکٹھی) تین طلاقیں ایک شمار ہوتی تھی، پھر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: لوگوں نے ایسے کام میں جلد بازی شروع کر دی ہے جس میں ان کے لیے تحمل اور سوچ بچار (ضروری) تھا۔ اگر ہم اس (عجلت) کو ان پر نافذ کر دیں (تو شاید وہ تحمل سے کام لینا شروع کر دیں) اس کے بعد انہوں نے اسے ان پر نافذ کر دیا۔ (اکٹھی تین طلاقوں کو تین شمار کرنے لگے۔

    لیکن جب الگ الگ مجلس میں تین طلاق دی جائیں تو ایک مجلس کا کتنا دورانیہ ہونا چاہیے؟ اس میں اختلاف ہے۔ کچھ علماء کہتے ہیں کہ ایک طہر ایک مجلس کا دورانیہ ہے۔ یعنی ایک طہر میں ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے۔ جب دوسری طلاق دینی ہو تو دوسرے طہر میں دی جائے گی۔ لیکن کچھ علماء کا کہنا ہے کہ نہیں ایک مجلس کی تین طلاق ایک واقع ہوتی ہیں، لیکن جب مجلس مختلف ہوگئی چاہے وہ ایک دن میں ہی کیوں نہ ہوجائے یعنی ایک دن میں صبح ٹائم ایک طلاق، دوپہر ٹائم ایک طلاق اور شام ٹائم ایک طلاق بھی کسی نے دے دی، تو تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔ اور درست مؤقف بھی یہی ہے کہ ایک مجلس کا شرعی دورانیہ عرفاً دوسری مجلس کے آغاز تک ہے۔ جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجيد ميں ارشاد فرمايا ہے :

    الطلاق مرتان :(البقرۃ:229)
    طلاق دو مرتبہ ہے ۔

    لغت عرب ميں لفظ ’’مرۃ‘‘ کا معنی ’’دفعۃ بعد دفعۃ‘‘ ہے۔ يعنی ايک کام کو کرنے کے بعد وقفہ کرکے پھر اس کام کو دوبارہ سر انجام دينا ۔ يہی مفہوم قرآن حکيم کی اس آيت سے بھی واضح ہوتا ہے :

    ياأيہا الذين اٰمنوا ليستئذنکم الذين ملکت أيمانکم والذين لم يبلغوا الحلم منکم ثلث مرات من قبل صلاۃ الفجر وحين تضعون ثيابکم من الظہيرۃ ومن بعد صلاۃ العشاء ثلث عورات لکم ۔(النور: 85)
    اے اہل ايمان ! تمہارے غلام اور نابالغ بچے بھی تم سے تين دفعہ اجازت طلب کريں ۔ نمازفجر سے قبل ،جب تم ظہر کے وقت اپنا لباس اتارتے ہو، اور نمازعشاء کے بعد ۔ يہ تين اوقات تمہارے پردے کے ہيں۔

    اس آيت مبارکہ ميں اللہ تعالیٰ نے لفظ ’’مرات‘‘ استعمال کيا ہے جوکہ ’’مرۃ‘‘ کی جمع ہے ۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے خود ہی اس کی تفسير بيان کرتے ہوئے تين مختلف اوقات بيان کيے ہيں جوکہ ايک دوسرے سے کافی دور ہيں ۔ اور ’’الطلاق مرتان‘‘ ميں لفظ ’’مرتان‘‘ استعمال ہوا ہے جوکہ ’’مرۃ‘‘
    کی تثنيہ ہے۔ جس سے يہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ طلاق دومرتبہ وقفہ وقفہ کے ساتھ ہے جس کے بعد مرد کو رجوع کا حق حاصل ہے۔ پھر اگر تيسری دفعہ طلاق دے دے تو عورت اس مرد پر حرام ہو جائے گی۔ ہاں ايک صورت ہے کہ اس عورت کا نکاح کسی دوسرے شخص کے ساتھ
    معروف طريقے سے ہوجائے پھر آپس کی ناچاکی کی وجہ سے وہ دوسرا مرد بھی اس کو طلاق دے ديتا ہے يا وہ فوت ہو جاتا ہے تو يہ عورت عدت گزارنے کے بعد پہلے خاوند سے نکاح کروا سکتی ہے۔ (البقرۃ:230)

    لہذا معلوم ہوا کہ

    1۔ ثلاث مرات یعنی تین مجالس ایک ہی دن میں بھی قائم ہوسکتی ہیں ۔
    2۔ یک مشت دی گئی تین طلاقیں ایک ہی ہیں ۔
    3۔ ایک مجلس کا شرعی دورانیہ عرفاً دوسری مجلس کے آغاز تک ہے ۔

    واللہ اعلم بالصواب.

ایک جواب چھوڑیں