حیض ونفاس کی مدت اور نماز روزہ کا حکم

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ اگر بیماری کی وجہ سے ماہواری کا خون کی ٹائمنگ خراب ہوجائے یا اسی طرح نفاس کے خون کی۔ تو پھر ایک عورت کو کتنے دن روزہ اور نماز چھوڑنی چاہیے؟

728 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! اس بیماری کو استحاضہ کی بیماری کہتے ہیں اور استحاضہ اس خون کو کہتے ہیں جو بلا وقت بیماری کی وجہ سے ’’ عاذل ‘‘ نامی رگ سے بہتا رہتا ہے۔ خون استحاضہ کی دم حیض کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے مستحاضہ عورت کا معاملہ ذرا مشکل ہوجاتا ہے۔ چونکہ اس عورت کی شرمگاہ سے ہمیشہ یا اکثر اوقات خون بہتا رہتا ہے چنانچہ یہ معلوم کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ حیض کا خون ہے جس میں وہ نماز روزہ چھوڑ دے یا استحاضہ کا خون ہے جس میں وہ نماز روزہ نہ چھوڑے۔ اس مشکل کی بناء پر مستحاضہ کی تین حالتیں ہیں۔

    1۔ پہلی حالت: معتادۃ

    وہ عورت جس کے مستحاضہ ہونے سے پہلے اس کی عادت حیض معروف تھی کہ وہ پانچ دن یا آٹھ دن مہینے کے شروع، وسط یا آخر میں حائضہ ہوتی تھی۔ وہ دنوں کی تعداد اور وقت کو جانتی ہو ایسی عورت اپنی معروف عادت کے مطابق نماز روزہ چھوڑ دے گی اور اس پر حیض کے احکام لاگو ہوں گے، جب معروف عادت کے دن اور وقت ختم ہوجائے تو اسے چاہئے کہ وہ غسل کرے اور نمازادا کرنا شروع کردے اور باقی خون کو استحاضہ سمجھے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا کو کہا:

    اِمْکُثِیْ قَدْرَ مَاکَانَتْ تَحْبِسُکِ حَیْضَتُکِ ثُمَّ اغْتَسِلِیْ وَصلَّیْ ۔(مسلم:504)
    اپنی مدت حیض کے برابر تو نماز روزہ سے رکی رہ، پھر غسل کر اور نماز پڑھ۔

    حضرت فاطمہ بنت ابی جیش رضی اللہ عنہا کو فرمایا:

    إِنَّمَا ذَلِکَ عِرْقٌ وَلَیْسَ بِحَیْضٍ فَاِذَا أقْبَلَتْ حَیْضَتُکِ فَدَعِيْ الصَّلوٰۃَ ۔ (بخاري:221)
    بے شک یہ رگ ہے، حیض نہیں جب تو اپنے (وقت) حیض کا سامنے کرے پس نماز چھوڑ دے۔

    2۔ دوسری حالت: متمیزۃ

    اس عورت کی ’’ معروف عادت ‘‘ نہ ہو لیکن اس کا خون متمیز ہو جس سے علم ہوجاتا ہو کہ یہ حیض یا استحاضہ کا خون ہے۔ مثلاً دم حیض کالا، گاڑھا اور بدبودار ہو جبکہ دم استحاضہ سرخ، پتلا اور بلا بدبو ہو، اس حالت میں عورت تمیز کرتے ہوئے متمیز دم حیض کے وقت نماز روزہ چھوڑ دے گی اور اس پر حیض کے احکام لاگو ہوں گے۔ جب کہ دم استحاضہ کے وقت غسل کرے اور نماز شروع کردے اور اس پر طاہرہ کے احکام لاگو ہوں گے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ بنت ابی جیش رضی اللہ عنہا سے کہا:

    إذَا کَانَ الْحَیْضُ فَإنَّہُ أسْوَدُ یُعْرَفُ،فَأمْسِکِيْ عَنِ الصَّلوٰة،فَإذَا کَانَ الآخَرُ فَتَوَضَّئِيْ وَصَلِّیْ ۔ (ابوداؤد:286)
    جب حیض ہو، جو معروف کالا خون ہے، پس نماز سے رک جا، جب اس کے علاوہ (خون) ہو تووضو کر اور نماز پڑھ۔

    اس صورت میں عورت اپنے خون کی تمیز کرتے ہوئے جان لیتی ہے کہ یہ حیض ہے یا استحاضہ ہے۔

    3۔ تیسری حالت: فاقدۃ

    ایسی عورت جس کی نہ تو ’معروف عادت‘ ہو اور نہ ہی ’صفت تمیز‘ ہو۔ یہ حیض کے غالب اوقات کااعتبار کرتے ہوئے مہینے میں چھ یا سات دن تک حائضہ شمار ہوگی کیونکہ اکثر عورتوں کی یہی عادت ہے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا کو فرمایا:

    إنَّمَا ھِيَ رَکْضَة مِنَ الشَّیْطَانِ فَتَحَیَّضِیْ سِتَّة أیَّامٍ أوْ سَبْعَة أیَّامٍ ثُمَّ اغْتَسِلِیْ،فَإِذَا اسْتَنَفَأتِ فَصَلِّیْ أرْبَة وَّعِشْرِیْنَ أوْثَلاَثة وَعِشْرِیْنَ وَصُوْمِيْ وَصَلِّيْ فَاِنَّ ذَلِکَ یُجْزِئُکَ وَکَذَلِکَ فَافْعَلِیْ کَمَا تَحِیْضُ النِّسَآئُ ۔ (ترمذی:128)
    بے شک یہ شیطان کی طرف سے چو کا ہے، پس تو چھ یا سات دن تک حائضہ رہ پھر غسل کرلے اور 23 یا 24 دن نماز پڑھ اور روزہ رکھ، تیرے لئے یہی کافی ہے اور اسی طرح کر جیسے حائضہ عورت کرتی ہے۔

    حاصل بحث

    مذکورہ بالا بحث کا حاصل یہ ہے کہ معتادۃ (معروف عادت والی) اپنی معروف عادت کا اعتبار کرے گی جب کہ متمیزہ (صفت تمیز والی) تمیز کا اعتبار کرے گی اور فاقدہ چھ یا سات دن تک اپنے آپ کو حائضہ شمار کرے گی اور مستحاضہ کے متعلق یہ تینوں حالتیں ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد ہیں۔

    باقی جہاں تک نفاس والی عورت کی ہے تو اگر کوئی عورت چالیس دن سے پہلے ہی طاہرہ (پاکیزہ) ہوجاتی ہے اور اس کا خون منقطع ہوجاتا ہے تو اس کو چاہئے کہ وہ غسل کرے اور نماز پڑھے۔ کیونکہ نفاس کے خون کی کم از کم کوئی حد متعین نہیں ہے۔ اور نہ ہی کسی سے اس کی تحدید ثابت ہے اور اگر چالیس دن مکمل ہوجانے کے بعد بھی خون جاری ہے اور منقطع نہیں ہوا تو اگر وہ عادت حیض کے موافق ہے تو اس کو حیض شمار کیا جائے گا اور اگر عادت حیض کے موافق نہیں ہے تو استحاضہ ہوگا اور عورت چالیس دن گذر جانے کے بعد اپنی عبادات کو ترک نہیں کرے گی۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں