عدالتی خلع کی شرعی حیثیت

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ عدالتی خلع کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

895 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن خلع کہتے ہیں کہ اگر میاں بیوی میں اس قدر نفرت پھیل جائے کہ وہ آئندہ ایک ساتھ نبھاہ نہ کرسکتے ہوں، اور ایک ساتھ رہ کر احکامات الٰہیہ کی نافرمانی میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو تو عورت کا اپنے خاوند سے چھٹکارا حاصل کرنا خلع کہلاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا

    اگر تمھیں اندیشہ ہو کہ وہ دونوں (میاں بیوی) اللہ کی حدودکوقائم نہیں رکھ سکیں گے۔اس لئے اگر بیوی کچھ مال(شوہرکو) بطور فدیہ دےدے توان دونوں کےلئے کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ (البقرہ:239)

    عورت اپنے خاوند کو مال دے کر طلاق دینے پر راضی کرلے کیونکہ وہ شرعی عذر کی وجہ سے اس کے ساتھ نباہ نہیں کرسکتی۔ لیکن اگر خاوند طلاق دینے پر راضی نہ ہو تو بذریعہ عدالت عورت خلع کروا سکتی ہے۔ اور عورت کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خلع اس صورت میں جائز ہے۔ جب عورت کا عذر معقول ہو بلا وجہ خلع لینے پر سخت ممانعت ہے جیسا کہ احادیث ملاحظہ ہوں

    ’’ جس عورت نے بھی اپنے شوہر سے بغیر کسی معقول عذر اور مجبوری کے خلع حاصل کیا اس پر جنت کی خوشبوحرام ہے‘‘۔(جامع ترمذی کتاب الطلاق)

    ایک اور حدیث میں ہے:

    ’’ خلع مانگنے والی اور اپنے شوہر سے جدائی کا مطالبہ کرنے والی عورتیں منافق ہوتی ہیں‘‘۔(مسند امام احمد2/414)

    لہٰذا شرعی مجبوری کو سامنے رکھتے ہوئے عورت بذریعہ عدالت خلع لے سکتی ہے اورعدالت اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے معاشرتی حالات کے پیش نظر اس کے حق میں تنسیخ نکاح کا فیصلہ دے دے تو قابل قبول ہے۔ باقی جو لوگ خلع میں بھی خاوند کی رضامندی کو شرط قرار دیتے ہیں، ان کی رائے درست نہیں۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں