ماہواری کا خون آتے ہی روزے کا باطل ہونا اور اس کی حکمت

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ میری ایک دوست ہے، جو ماہواری کا خون آنے کی صورت میں بھی روزہ جاری رکھتی ہے۔ تو اس بارے رہنمائی فرمائیں کہ کیا جب روزے کی حالت میں ماہواری شروع ہو تو روزہ توڑ دینا چاہیے یا پھر مکمل کرنا چاہیے؟

315 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! روزے کی حالت میں جب ماہواری کا خون آجائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ چاہے آپ خود سے توڑیں یا نہ توڑیں۔ اگرچہ یہ ماہواری سورج غروب ہونے سے چند لمحہ پہلے ہی کیوں نہ شروع ہوئی ہو۔ اس صورت میں اگر واجب روزہ ہے تو اس کی قضا دینا ہوگی۔ ماہواری میں روزے کا جاری رکھنا حرام ہے۔ جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

    حائضہ اورنفاس والی عورت کے روزہ کی حرمت میں امت کا اجماع ہے، لہذا اس بنا پر اس کا روزہ صحیح نہیں۔ امت کا اس پربھی اجماع ہے کہ اسے اس روزہ کی قضاء میں روزہ رکھنا ہوگا، امام ترمذی، ابن منذر، اورابن جریر اورہماے اصحاب وغیرہ نے یہ اجماع نقل کیا ہے۔ ( المجموع للنووی 2 / 386)

    اسی طرح حدیث میں ہے

    وَحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ مُعَاذَةَ، قَالَتْ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ فَقُلْتُ: مَا بَالُ الْحَائِضِ تَقْضِي الصَّوْمَ، وَلَا تَقْضِي الصَّلَاةَ. فَقَالَتْ: أَحَرُورِيَّةٌ أَنْتِ؟ قُلْتُ: لَسْتُ بِحَرُورِيَّةٍ، وَلَكِنِّي أَسْأَلُ. قَالَتْ: كَانَ يُصِيبُنَا ذَلِكَ، فَنُؤْمَرُ بِقَضَاءِ الصَّوْمِ، وَلَا نُؤْمَرُ بِقَضَاءِ الصَّلَاةِ۔ (مسلم:763)
    عاصم نے معاذہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا، میں نے کہا: حائضہ عورت کا یہ حال کیوں ہے کہ وہ روزوں کی قضا دیتی ہے نماز کی نہیں ؟ انہوں نے فرمایا: کیا تم حروریہ ہو؟ میں نے عرض کی: میں حروریہ نہیں،(صرف) پوچھنا چاہتی ہوں۔ انہوں نے فرمایا: ہمیں بھی حیض آتا تھا تو ہمیں روزوں کی قضا دینے کا حکم دیا جاتا تھا، نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا ۔

    باقی بہن جو آپ نے سوال کیا اگر وہ جاری رکھ رہی ہے تو کیا وجہ ہے؟ اور اگر توڑ دینا چاہیے تو اس میں کیا حکمت ہے؟ روزے کو جاری رکھنے والا فعل تو اس کا اپنا گناہ ہے اور اجماع امت کی مخالفت ہے۔ باقی جہاں تک سوال ہے کہ روزہ کیوں توڑ دیناچاہیے؟ اس کی کیا حکمت ہے؟ تو بہن ہرمسلمان پرواجب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پرمن وعن عمل کرے، خواہ کسی حکم کی حکمت معلوم ہو یا نہ ہو۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے

    وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا۔ (سورۃ الاحزاب:36)
    اور(دیکھو کسی مومن مرد وعورت کو اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ کے بعد اپنے کسی امر کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا، (یاد رکھو) اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی جو بھی نافرمانی کرے گا وه صریح گمراہی میں پڑے گا۔

    تاہم بعض اوقات حکم کی حکمت ہمیں معلوم ہوجاتی ہے اور بعض اوقات معلوم نہیں ہوتی۔ حائضہ عورت پرروزے کی حرمت میں کیا حکمت ہے؟ اس میں علماء کے مختلف اقوال ہیں۔

    1۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ ہمیں اس کی حکمت کا علم نہیں۔
    2۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ اس میں یہ حکمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حائضہ عورت پررحم کرتے ہوئے اسے روزہ رکھنے سے روکا ہے، کیونکہ خون کا اخراج سے کمزوری ہوجاتی ہے اور اگر وہ اس کے ساتھ روزہ بھی رکھے یا روزہ جاری رکھے تو اس کے ساتھ اور بھی کمزوری ہوگی، کیونکہ حیض اور روزہ دونوں کی کمزوری جمع ہوجائے گی جس بناءپر نقصان پہنچے گا۔

    یقیناً شریعت اسلامیہ ہرچیز میں عدل وانصاف لائی ہے۔ اور عدل وانصاف کا تقاضا ہے کہ جب ایسی صورت واقع ہوجائے تو پھر حکم کو اٹھا لیا جائے۔ لہٰذا اعتدال پسندی کا یہی راستہ ہے کہ وہ حیض میں روزہ توڑ دے، نہ رکھے اور جب دوسرے ایام ہوں تو اس کی قضا دے دے۔ کیونکہ دوران حیض جب اس کا خون خارج ہوتا ہے، جو بدن کو تقویت دینے کا باعث ہے جس کے اخراج سے بدن کو نقصان اور کمزوری ہوتی ہے اگر اس صورت میں روزہ ہوگا تو روزہ اعتدال کی حالت سے نکل جاتا ہے تو اس کےلیے یہ حکم ہے کہ وہ حالت حیض میں روزہ نہ رکھے، بلکہ دوسرے اوقات میں اسے مکمل کرلے۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں