پکچر بنانی اور بنوانے کی شرعی حیثیت

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ پکچر بنانی اور بنوانے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا وٹس ایپ پروفائل میں انسانی پک لگائی جاسکتی ہے؟

426 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    عورت کےلیے کسی بھی صورت میں تصویراتروانا جائز نہیں۔ کیونکہ کتاب وسنت کے دلائل کے مطابق عورت ساری کی ساری ستر اور پردہ ہے۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں

    ’’ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ‘‘۔ (سورۃ النور:31)
    اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنےظاہر نہ کریں، سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد کے یا اپنے خسر کے یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے یا غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکر مردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہیں

    اور دوسرے مقام پر ارشاد ربانى ہے:

    ’’ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ‘‘۔(سورۃالاحزاب :53 )
    اور جب تم نبى كى بيويوں سے كوئى چيز طلب كرو تو پردہ كے پيچھے سے طلب كرو، يہ ان كے اور تمہارے دلوں كے ليے پاكيزگى كا باعث ہے۔

    لہذا عورت كى تصوير مطلق طور پر جائز نہيں، كيونكہ اس ميں فتنہ وشر ہے جس كے نتيجہ ميں فى ذاتہ تصوير كى حرمت اور زيادہ ہو جاتى ہے۔ اورخاص طور وہ خواتین جو موبائل میں تصاویر بنا کر سیو رکھتی ہیں، ان کو اس عمل سے گریزکرنا چاہیے، کیونکہ موبائل کے گم ہوجانے کی صورت میں بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے۔

    اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو محفوظ رکھے۔ آمین

    نوٹ:
    بامرمجبوری ،جو شرعی حوالے سے واقعی مجبوری ہو، تو پھر تصویر بنوائی جاسکتی ہے۔ باقی وٹس ایپ اسی طرح باقی سوشل سائٹس وایپ پر خواتین کو تصویر بالکل نہیں لگانی چاہیے۔ ہاں چھوٹے بچوں اور بچیوں کی تصاویر لگا لی جائے تو کوئی حرج نہیں۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں