طلاق یافتہ کی عدت اور ایک مجلس کی تین طلاق

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ ایک خاتون کو ایک سال پہلے ایک ہی مجلس میں تین طلاق دی گئیں، جب اس طرح طلاق دی گئی تو وہ لاعلمی کی بنیاد پر اپنے والدین کے گھر آکر عدت گزارنے لگی، تو کچھ لوگوں نے کہا کہ عدت شوہر کے گھر گزارنا ہوتی ہے۔تو وہ عدت گزارنے کےلیے خاوند کے گھر واپس چلی گئی۔اس نے پڑھا کہ جب ایک بار تین طلاق دی جائیں تو تین واقع نہیں ہوتیں اور بچوں کی وجہ سے خاوند نے بھی فیصلہ کرلیا کہ وہ اسے اپنے پاس رکھے۔لیکن اس کے سسروال والے اس کو گناہ سمجھ رہے تھے، جس وجہ سے ان کا رویہ درست نہیں تھا۔اور انہوں نے کراچی میں مولانا سے فتویٰ بھی لیا جس کا جواب تھا کہ ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقیں تین ہی ہوتی ہیں۔اورچونکہ طلاق کو اب ایک سال کا عرصہ بھی گزر گیا ہے، لہٰذا طلاق واقع ہوچکی ہے۔اور ایک مجلس میں تین طلاق کا تین شمار کرنا حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ایسی کا حکم دیتے تھے۔ اور چونکہ ہم حنفی المذہب امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مقلد ہیں لہٰذا امام صاحب کا بھی یہی مؤقف ہے۔ بچوں کی وجہ سے خاتون اور مرد نے دوبارہ ایک ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا، تو خاتون نے کہا کہ آپ مجھے الگ گھر میں رکھیں تو میں بچوں کے ساتھ رہنے کو تیار ہوں۔تو اب سوال یہ ہے کہ اگر وہ خاتون مرد کے ساتھ دوبارہ رہنا چاہتی ہیں تو کیسے رہے گی؟

551 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:
    بہن! سب سے پہلی بات جو آپ نے کی کہ اس نے والدین کے گھر آکر عدت گزارنا شروع کی، تو یہ اس نے غلط کیا۔ کیونکہ قرآن پاک میں ہے

    لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ۔(سورۃ الطلاق:1)
    نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وه (خود) نکلیں۔

    لہذا جب عورت کو طلاق ہوجائے تو اسے عدت اپنے خاوند کے گھرگزارنی چاہیے۔

    دوسری بات یہ ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاقیں دی جائیں یا پھر الگ الگ تین مجلس میں تین طلاقیں دی جائیں یا پھر ایک مجلس میں ایک طلاق دی جائے لیکن مقررہ عدت گزر جائے تو کیا طلاق واقع ہوجائے گی یا نہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ طلاق جس بھی صورت میں دی جائے، جب عدت گزر گئی، تو طلاق واقع ہوگئی۔

    تیسری بات اگر ایک خاتون کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دی گئیں یا اسے صرف ایک طلاق دی گئی، اور اس کی عدت بھی ختم ہوگئی تو اب وہ کیسے اپنے خاوند سے رجوع کرسکتی ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ دوبارہ نکاح کرلیں۔ لیکن یہاں یہ بات یاد رہے کہ اگر ایک عورت کو تین طلاق تین طہر میں دی گئیں تو پھر وہ پہلے مرد سے نکاح نہیں کرسکتی، یہاں تک کے وہ کسی اور مرد سے نکاح کرے، اور شرعی تقاضوں کی بنیاد پر اس سے بھی طلاق ہوجائے تو پھر یہ عورت پہلے مرد سے دوبارہ نکاح کرسکتی ہے۔

    جہاں تک بات ہے کہ ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقیں تین شمار ہوتی ہیں یا ایک؟ تو اس میں مابین علماء شدید اختلاف ہے۔ اس بحث کو منطقی اعتبار سے سمجھنے کےلیے اس حدیث پر غور فرمائیں کہ

    حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ رَافِعٍ، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وَقَالَ ابْنُ رَافِعٍ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: ” كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: إِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوا فِي أَمْرٍ قَدْ كَانَتْ لَهُمْ فِيهِ أَنَاةٌ، فَلَوْ أَمْضَيْنَاهُ عَلَيْهِمْ، فَأَمْضَاهُ عَلَيْهِمْ۔ (مسلم3673)
    معمر نے ہمیں ابن طاوس سے خبر دی، انہوں نے اپنے والد (طاوس بن کیسان) سے، انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں اور عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے (ابتدائی) دو سالوں تک (اکٹھی) تین طلاقیں ایک شمار ہوتی تھی، پھر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: لوگوں نے ایسے کام میں جلد بازی شروع کر دی ہے جس میں ان کے لیے تحمل اور سوچ بچار (ضروری) تھا۔ اگر ہم اس (عجلت) کو ان پر نافذ کر دیں (تو شاید وہ تحمل سے کام لینا شروع کر دیں) اس کے بعد انہوں نے اسے ان پر نافذ کر دیا۔ (اکٹھی تین طلاقوں کو تین شمار کرنے لگے)

    اس حدیث میں دو باتیں سوچنے سمجھنے کے قابل ہیں

    1۔ پہلی بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں، حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے دور میں اور حضرت عمررضی اللہ عنہ کے ابتدائی دو سالوں میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا۔ ہم یہاں دور صدیقی اور دورفاروقی کی بات نہ ہی کریں، صرف دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کرلیں، تو یہ صراحت ہے کہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک مجلس کی تین طلاق کو تین نہیں بلکہ ایک شمار کیا جاتاتھا۔ جب دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین نہیں بلکہ ایک شمار کیا جاتا تھا تو ہم پھر کیوں اس بات پر جھگڑ رہے ہیں کہ تین کو تین ہی شمار کرنا ہے؟
    2۔ دوسری بات اسی حدیث سے یہ ثابت ہے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کا تین کو تین شمارقراردینے کا فیصلہ شرعی نہیں بلکہ سزا کے طور پر تھا۔ کیونکہ خود حضرت عمررضی اللہ عنہ کا بیان بھی اسی حدیث میں ہے کہ لوگوں کو جس کام میں سوچ وبچار اور تحمل سے کام لینا تھا، انہوں نے اس میں ہی جلد بازی شروع کردی، تو لہٰذا ایسے لوگوں کے لیے یہ جلدبازی ان پہ سزا کے طور پرقائم کردی جائے۔ تاکہ یہ لوگ رک جائیں۔ لہٰذا یہ سزا ان پرقائم کردی گئی کہ ایک مجلس کی تین طلاق کو تین ہی شمار کیا جائے گا۔ اور ہم سب سلیم العقل یہ جانتے ہیں کہ جو سزا ہوتی ہے وہ ہمیشہ قائم نہیں رہتی، بلکہ جب اصلاح ہوجاتی ہے تو سزا بھی ٹل جاتی ہے۔

    خلاصہ کلام:

    درست اور قرآن وسنت کے قریب مؤقف یہی ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین نہیں ایک ہی طلاق شمار ہوگی۔ باقی چونکہ اس موضوع پرمابین علماء اختلاف ہے، اس لیے مزید تفصیل اور دلائل کےلیے کتب کی طرف رجوع کریں۔

    اہم نوٹ:
    اب جہاں تک بات ہے کہ وہ دوبارہ ایک دوسرے کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں، تو چونکہ ایک مجلس میں تین طلاق دی گئیں تھی، سو وہ تین نہیں بلکہ ایک طلاق واقع ہوئی تھی۔ اور چونکہ اب عدت گزرچکی ہے جس وجہ سے طلاق بھی واقع ہوگئی۔ اب اگر وہ دوبارہ ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو نئے نکاح کے ساتھ دوبارہ اپنی زندگی بسرسکتے ہیں۔عورت کو حلالہ جیسے لعنتی فعل سے گزارنے کی اور اس پر ظلم کرنے کی ضرورت نہیں۔ اور جو ایک مجلس کی تین طلاق کو تین شمار کرکے عورت کےلیے حلالہ کا مشورہ دیں، تو ان سے معصومانہ سوال کردینا چاہیے کہ طلاق مرد نے دی ہے تو حلالہ عورت کا کیوں؟ حلالہ بھی مرد کا ہونا چاہیے۔ عورت کا نہیں، کیونکہ جو غلطی کرتا ہے، اس کی سزا بھی وہی پاتا ہے۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں