صحابی درخت کا قصہ … جھوٹ یا سچ

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ ایک صحابی درخت کی کہانی انٹرنیٹ پر عام ہے، اس کی کیا حقیقت ہے؟۔

1007 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن اس صحابی درخت کی حقیقت پر ایک بہن نے اردو مجلس فورم پر لکھا، جس کو اختصاراور کچھ اضافوں کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ انٹرنیٹ پرایک عجیب وغریب قسم کی خبر صحابی درخت کی ہے۔ کہنے والوں کا کہنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بچپن میں جب شام کے تجارتی سفر پر گئے تھے تو ان کی ملاقات بحیرا یا بحیرہ نامی راہب سے ہوئی اور وہیں ایک درخت نے آپ کو مستقبل کے نبی کی حیثیت میں پہچان کر اپنی شاخیں بچھا دیں۔ بعض دھوکے بازوں نے ایک درخت کی تصویر بھی حاصل کر لی ہے اور اسے صحابی کی حیثیت سے متعارف کروا رہے ہیں۔ بقول ان لوگوں کے یہ درخت سعودی عرب کی موجودہ حدود میں تو موجود نہیں ہے لیکن اس کا پیارے نبی وآقا سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک اٹوٹ رشتہ ہے جس پر یہ درخت خود بھی بے حد نازاں ہے اور آج کے دورمیں اس درخت کا اپنی جگہ ہونا ایک زندہ معجزہ ہے ۔

    واقعہ کچھ اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ رسول مکرم محمد صلی الله علیہ وسلم ابھی کم سن تھے اور آپ کی عمر شریف محض بارہ سال کے لگ بھگ تھی کہ آپ اپنے چچا سیدنا ابو طالب کے ساتھ ایک قافلے کی شکل میں مکہ سے بغرض تجارت روانہ ہوے- قافلے نے ملک شام کے جنوب میں اس مقام پر پڑاؤ ڈالا جہاں یہ درخت موجود ہے۔ اس مقام سے قریب ’’بصرہ‘‘ یا ’’بوسیرہ‘‘ میں ایک عیسائی راہب ’’بحیرہ‘‘ رہا کرتا تھا۔ اس نے انجیل مقدس اور دوسری کتابوں میں یہ پڑھ رکھا تھا کہ ایک آخری نبی مکہ میں پیدا ہوں گے، کتابوں میں اس نبی کے پیدا ہونے کی بہت سی نشانیاں بھی اس نے پڑھ رکھی تھیں- اس کے علم کے مطابق وہ نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوگئی تھیں ۔
    وہ وقت قریب آ چکا تھا جب الله کے آخری نبی کا ظہور ہونا تھا- وہ الله کے اس عظیم نبی سے ملنے کا خواہشمند تھا- جب یہ قافلہ اس کے شہر کے قریب پڑاو ڈالے تھا تو اس کی متجسس نگاہیں اس قافلے پر مرکوز تھیں۔ اس کے علم میں جب یہ بات آئی کہ اس قافلے میں ایک بچہ ایسا ہے کہ وہ دھوپ میں جس طرف بھی جاتا ہے بادل کا ایک ٹکڑا اس پر سایہ فگن رہتا ہےتو خبر راہب کو یقین کی حد تک لے گئی کہ یہی الله کے آخری نبی ہیں- لیکن سو فیصد تصدیق کے لیے اسے ابھی کچھ اور بھی تجربہ کرنا تھا- اس کا اضطراب دیدنی تھا- اس نے قافلے کے تمام لوگوں کو کھانے پر مدعو کیا- سب لوگ دعوت پر آئے لیکن وہ بارہ سال کا بچہ دعوت میں موجود نہیں تھا جس سے وہ راہب ملنے کے لیے بے چین تھا – اس بچے کا نہ آنے سے وہ بے قرار باہر کی جانب آیا اور اس قافلے کے پڑاؤ کی جانب دیکھنے لگا- اس نے دیکھا کہ وہ بارہ سال کا بچہ تنہا اس درخت کے نیچے آرام فرما رہا ہے- اس راہب کو بے قراری اور بڑھ گئی اور اس کو اب یقین کامل ہوگیا کہ یہی وہ ہستی ہے ، یہی وہ آخری نبی ہیں جس کے لیے الله سبحان وتعالی نے اس پوری کائنات کو پیدا فرمایا ہے – اس راہب نے اس درخت کے بارے میں پڑھ رکھا تھا کہ اس مقدس درخت کے نیچے آخری نبی ہی ہوں گے جو آرام فرمائیں گے- اس راہب نے عزت سے کم سن رسول سیدنا محمد صلی الله علیہ وسلم کو ضیافت میں آنے کی درخواست کی اور پھر لوگوں کو آگاہ کیا کہ یہی وہ آخری نبی ہیں جن کا ذکر پاک مقدس انجیل میں موجود ہے – اس راہب نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کو نہ صرف مشورہ دیا بلکہ اس بات پر راضی بھی کیا کہ کہ وہ اس عظیم بچے کو واپس مکہ لے جائیں کیوں کہ بہت سے یہودی اس متبرک بچے کی جان مبارک کے دشمن ہیں اور وہ ا ن کی تلاش میں ہیں –

    یہ تو وہ واقعہ ہے، جس نے اس درخت کو متبرک اور مقدس بنا دیا – اور اس درخت زندہ معجزہ اس اعتبار سے کہتے ہیں کہ تقریباً پندرہ سو سال گزرجانے کے باوجود یہ اپنی جگہ قائم ودائم ہے – حیران کن بات یہ ہے کہ اس درخت کے چاروں طرف سو کلو میٹر کے دور کوئی اور درخت موجود نہیں – اس درخت کے متعلق یہ بھی کہا جاتا کہ یہ پستے کا درخت ہے اور اس میں آج بھی پھل لگتا ہے۔

    یہ ساری صرف گپ شپ کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس ساری گپ میں جو نکات قابل غور ہیں وہ یہ ہیں :

    1۔ صحابی کی تعریف کیا ہے ؟
    ہر وہ شخص جو بحالت اسلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کر چکا ہو اور حالت اسلام ہی میں وفات پائے ، صحابی کہلاتا ہے ۔(معجم اصطلاحات حدیث :232)
    اس تعریف کو دیکھنے کے بعد غور فرمائیے کہ کیا صحابی بے جان چیزوں کو کہہ سکتے ہیں ؟ اگر مسلمانوں کی اندھی عقیدت کے سبب یمن کا ایک درخت صحابی ہو گیا ہے تو پھر غارثور، غار حرا، حجر اسود، مقام ابراہیم سمیت باقی “صحابہ” سے کیا دشمنی ہے ؟

    2۔ بحیرا راہب کا قصہ جو بعض کتابوں میں آیا ہے وہ کس حد تک مستند ہے ؟
    قارئین کرام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بحیرا راہب سے ملنے کے قصوں کی کوئی بھی سند پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی۔ اور یہی واقعہ حضرت صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے اپنی تصنیف کردہ مستند سیرۃ الرسول ” الرحیق المختوم” میں بھی ذکر کیا ہے، لیکن آپ نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’بعض روایات کے مطابق جن کی اسنادی حیثیت مشکوک ہے‘‘
    جب اس واقعہ کی اسنادی حالت بھی شک سے دور نہیں تو پھر اس افسانے کو کیسے حقیقت مان لیا جائے؟

    3۔ کتب سیرت میں مذکور بحیرہ راہب کے قصوں میں صرف ایک درخت کے سجدے کا قصہ نہیں بلکہ ذکر ہے کہ وہاں موجود تمام شجر وحجر نے سجدہ کیا تھا۔اس صورت میں وہاں موجود تمام شجر وحجر میں سے صرف ایک درخت ہی کو کیوں منتخب کیا گیا ؟

    4۔ آپ درخت کی تصویر کو دیکھیں دعوی ٰہے کہ 1460 ہجری سال پہلے اس درخت نے سایہ کیا۔ جب کہ ہجری تقویم کا ابھی1437 واں سال شروع ہے اور ہجری تقویم واقعہ ہجرت سے شروع ہوئی تھی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن میں کون سا ہجری کیلینڈر تھا ؟

    اس لیے میری بہن جب ایک قصہ درست ہی نہیں تو اس کی بنیاد پر کسی درخت کے صحابی ہونے کا قصہ اس سے بھی بڑا جھوٹ ہے اور یہ ایک اسلامی اصطلاح کا مذاق اڑانے کی کوشش ہے۔ اللہ عز وجل ہمیں اس دجل و فریب سے محفوظ فرمائے ۔ آمین

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں