شادی کے بعد عورت کا اپنے نام کے ساتھ خاوند کانام لگانا

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ کیا عورت شادی کے بعد اپنے نام کے ساتھ اپنے شوہر کا نام لگا سکتی ہے؟

409 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    عورت کے نام کے ساتھ کوئی دوسرا نام اضافہ کرنے کا مطلب کیا ہے ؟ اس بات کو سمجھنے کے لیے اس کو دو صورتوں میں تقسیم کر لیں ۔
    پہلی صورت :
    نام ساتھ لگاتے ہوئے دونوں کے مابین رشتے کی صراحت ہو ، مثلاً یوں کہا جائے : عائشہ بنت ابی بکر ، عائشہ زوجہ محمد ۔ تو ایسی صورت میں آپ صحیح رشتے کی وضاحت کے ساتھ نسبت چاہے باپ کی طرف کریں یا خاوند کی طرف ، کوئی حرج نہیں ۔ اور یہ دونوں مثالیں قرآن مجید اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔ بلکہ صرف باپ یا شوہر ہی کیا ، حسب ضرورت کسی اور رشتہ دار کی طرف بھی نسبت کی جاسکتی ہے ۔
    دوسری صورت :
    عورت کے نام کے ساتھ مرد کا اضافہ کرتے ہوئے رشتے کی صراحت نہ ہو ، مثلاً یوں کہا جائے ، عائشہ ابو بکر ، عائشہ محمد ۔
    یہ بات پہلے واضح کی جا چکی ہے کہ رشتہ کی صراحت کے ساتھ دونوں طرف نسبت جائز ہے ، گو یہاں مسئلہ رشتے کی وضاحت حذف کرنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے ۔اب ایسی صورت حال میں ہم ’’ عرف ‘‘ یعنی ’’ رائج الوقت ‘‘ سے مدد لیتے ہیں ۔
    اس صورت میں عرب خاوند کا نام ساتھ لگانے کو درست نہیں سمجھتے ، کیونکہ ان کے ہاں یہ عرف ہے کہ آدمی یا عورت کے نام کے ساتھ بغیر کسی وضاحت کے دوسرا نام باپ کا نام تصور کیا جاتا ہے ، تیسرا نام دادا کا تصور کیا جاتا ہے ۔
    مثلا ً:
    فاطمہ محمد عبد اللہ
    اس نام سے وہ یہی سمجھیں گے کہ عورت کا نام فاطمہ ، محمد والد کانام ، اور عبد اللہ دادا کا نام ہے ۔ اسی لیے ان کے ہاں کئی سرکاری و غیر سکاری فارموں میں اندراج کے وقت یہ نہیں لکھا ہوتا کہ اپنا نام ، باپ کا نام ، دادا کانام لکھیں ، بلکہ لکھا ہوتا ہے ، اپنا ’’ اسم ثلاثی ‘‘ ( یعنی تین حصوں پر مشتمل نام ) لکھیں ۔
    جبکہ ہمارے ہاں بھی پہلے پہل تو یہی سمجھا جاتا تھا کہ مرد یا عورت کے نام کے ساتھ دوسرا نام اس کے والد کا ہی ہوتا ہے ، لیکن جب ہم ان لوگوں کےعادات وا طوار سے متاثر ہوئے جو عورت کے نام کے ساتھ شوہر کا نام لگاتے ہیں تو ہماری اکثریت میں یہی رائج ہوگیا کہ جوان عورت کےنام کے ساتھ کسی دوسرے کا نام اس کے شوہر کا نام ہی سمجھا جاتا ہے ، بلکہ اگر وہ باپ کا نام بھی لگاتی ہے ، تو وہ لوگ اس کو شوہر ہی سمجھتے ہیں ۔
    گویا ہمارے عرف نے یہ تعیین کردی ہے کہ
    عائشہ محمد
    سے مراد
    عائشہ زوجہ محمد
    ہے ، لہذا یہ درست ہے ۔ اور باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف نسبت پر وعید والی نصوص اس پر منطبق نہیں ہوتیں ، کیونکہ یہ نسبت بطور باپ نہیں بلکہ بطور شوہر ہے اور بطور شوہر نسبت کی مثالیں خود قرآن وسنت اور اقوال صحابہ میں موجود ہیں ۔
    اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہمارے ہاں کوئی عورت اپنے باپ کا نام ساتھ نہیں لگاسکتی ، لگاسکتی ہے ، اگر کوئی نام ساتھ لگانا ہی ہے تو باپ کا نام ساتھ لگالیں ، اوراگر کوئی پوچھے تو وضاحت کردینی چاہیے کہ یہ والد کا نام ہے ۔
    واللہ اعلم بالصواب
    ایک وضاحت :
    میری نظر میں اصل مسئلہ یہی ہے ، اس سے ہٹ کر جو باتیں ہیں ، مثلا عورت کو شوہر کا نام ساتھ نہیں لگانا چاہیے کہ اگر خدانخواستہ طلاق ہوئی تو پھر تبدیل کرنا پڑے گا وغیرہ ، تو ان کا اصل مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا ، اگر طلاق کے خدشے کو مد نظر رکھ جائے ، پھر تو شادی ہی نہیں کرنی چاہیے ، اور اگر طلاق کے بعد دیگر کام ہوسکتے ہیں تو نام کی تبدیلی ان کی نسبت کوئی بڑامسئلہ نہیں ۔ یہ اپنی اپنی آراء ، ہیں ، نکتہ ہائے نظر ہیں ، جن میں سے ایک یہ بھی ہوسکتا ہے نام کے ساتھ آگے کچھ بھی نہ لگایا جائے ، جب کہ جہاں خاوند کی ضرورت ہے ، وہاں خاوند کا نام ہو ، جہاں والد کی ضرورت ہو والد کانام ہے ، جس طرح شناختی کارڈ یا پاسپورٹ وغیرہ میں ہوتا ہے ۔
    نقل کردہ.

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں