غصہ میں دی گئی طلاق کا حکم

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ اگر ایک خاوند اپنی بیوی کو غصے میں طلاق دیتا ہے تو کیا وہ طلاق واقع ہوجاتی ہے؟

326 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! غصہ کی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے۔

    1۔ خولہ بنت ثعلبہ اوس بن ثابت کی اہلیہ تھیں، ایک روز ان دونوں میں جھگڑا ہو گیا تو اوس بن ثابت نے غصے سے ظہار کرڈالا۔حضرت خولہ پریشانی کی حالت میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور تمام ماجرا کہا تو اللہ تعالیٰ نے آیت ظہار نازل فرمائیں۔ پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو ظہار کے کفارہ کا حکم دیا۔ (سنن ابن ماجہ:2063)

    2۔ اوس بن ثابت نے غصے کی حالت میں ظہار کرنے کے باوجود اس کا کفارہ ادا کیا۔ طلاق بھی ظہار ہی کی طرح ہے۔ (جامع العلوم:ص149)

    ابن رجب جامع میں فرماتے ہیں:
    اوس بن ثابت نے غصے کی حالت میں ظہار کیا تھا پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہار کو طلاق شمار کیا اور ان کی بیوی کو ان پر حرام قرار دیا۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے ظہار کا کفارہ لازم کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوس بن ثابت کو کفارہ سے بری قرار نہیں دیا۔ (ص:149)

    اعتراض اور اس کا جواب

    ان احادیث پر یہ اعتراض وارد کیا گیا ہے کہ یہ غصے کی ابتدائی حالت سے متعلق ہے، کیونکہ غصہ کی تین حالتیں ہوتی ہیں

    1۔ یہ کہ انسان پر غصہ کی ابتدائی حالت طاری ہو جہاں پر اس کی عقل میں فتور نہ آئے اورجو وہ کہہ رہا ہو اس کو بخوبی جانتا ہو۔ ایسی حالت میں دی گئی طلاق بغیر کسی اشکال کے واقع ہوجائے گی اور وہ اپنے اقوال کا مکلف ہوگا۔ (جامع العلوم والحکم:ص148)
    2۔ ایسا غصہ جس میں انسان حواس کھو بیٹھتا ہے۔ اور متکلم کو پتہ نہیں چلتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ تو یہ طلاق واقع نہیں ہوگی۔
    3۔ غصے کی تیسری حالت یہ ہے کہ انسان پر شدید غصہ تو طاری ہو، لیکن ایسا نہ ہو کہ وہ ہوش و حواس ہی کھو بیٹھا ہو۔ اس حالت میں دی گئی طلاق کے وقوع اور عدم وقوع میں علما کے مابین اختلاف ہے۔

    اب جو علماء غصہ میں دی گئی طلاق کے وقوع کو تسلیم نہیں کرتے، ان کا کہنا ہے کہ کہ حضرت خولہ کی بیان کردہ حدیث سے غصے کی پہلی قسم مراد ہے۔جس میں عقل، سوجھ بوجھ قائم ہوتی ہے اور انسان جو کچھ کررہا ہوتا ہے اسے اس کا پتہ ہوتا ہے۔ لیکن اس کے جواب میں عرض ہے کہ یہ حدیث مطلق طور پر عمومی غضب سے متعلق ہے اور اس میں کسی قسم کی کوئی تفصیل نہیں اور احتمالی جگہ پر تفصیل کو چھوڑ دینا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کو عموم پر محمول کیا جائے۔ اس میں اگرچہ غصہ کی تینوں حالتیں اور ہر غصے کی حالت میں دی گئی طلاق لازم ہوگی۔ لیکن اجماع امت سے وہ حالت اس سے نکل گئی جب غصہ انتہاء کو پہنچ جاتا ہے۔ اس طرح اس حدیث میں دوسری دونوں قسمیں شامل ہوں گی۔

    3۔ مجاہد بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو غصے کی حالت میں تین طلاقیں دے دی ہیں۔ تو ابن عباس نے فرمایا: میں اپنے آپ میں اس قدر جرأت نہیں پاتا کہ تیرے لیے وہ حلال کردوں جو اللہ تعالیٰ نے حرام کردیا ہے۔ تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی ہے اور اپنی بیوی کو اپنے اوپر حرام کرلیا ہے۔ (دارقطنی:4/13)

    لہٰذا ثابت ہوا کہ ایسا غصہ جس میں انسان اپنے ہوش وحواس میں ہوتا ہے،چاہے وہ غصہ جتنا مرضی شدید ہو تو اس حالت میں دی گئی طلاق واقع ہو جائے گی۔ باقی اگر اس نے ایک ہی بار تین طلاقیں دیں تو ایک طلاق واقع ہوگی، تین نہیں۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں