قرآن کی محبت کیسے پیدا ہو

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ قرآن سے جوڑے رہنے، قرآن پر عمل کرنے اور قرآن کی دل میں محبت پیدا کرنے کے حوالے سے دعا اور استغفار بتائیں۔

226 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    قرآن سے فائدہ اٹھانے، قرآن پر عمل کرنے اور قرآن سے جوڑے رہنے کی کچھ تراکیب بتائی جارہی ہیں۔ اس پر عمل کرکے ان شاءاللہ فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

    1۔ قرآن مجید سے تعلق ودلچسپی
    قرآن مجید سے ہمارا تعلق اتنا مضبوط ہو، ہمیں اتنی دلچسپی ہو کہ یہ ہماری تمام تر توجہات کا مرکز بن جائے۔ ہماری اولین ترجیح یہی ہو۔ خواہ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں، ہم روزانہ باقاعدگی سے اس کی تلاوت کریں۔ ہم کتنے ہی مصروف کیوں نہ ہوں، اس کے لیے ہر حال میں وقت نکالیں۔ ہم جتنا قرآن کو وقت دیں گے، اتنا ہی وہ ہمیں نفع دے گا۔ جو خوش نصیب دن میں کئی بار قرآن شریف کا مطالعہ کرتا ہے وہ کامیاب و کامران ہوتا ہے۔ قرآن کے لفظ و معنی دونوں ہی سے استفادہ کرنا چاہیے۔

    2۔ پڑھنے کےلیے مناسب جگہ اور ماحول
    قرآن شریف کے ذریعے تبدیلی لانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کے مطالعے کے لیے موزوں و مناسب جگہ منتخب کریں۔ ہم ایک معزز مہمان کا استقبال اپنے گھر میں جس طرح کرتے ہیں، اس سے کہیں بڑھ کر قرآن کا خیر مقدم کریں۔ شور و شغب سے خالی پُرسکون جگہ میں قرآن کریم سے ملاقات کریں۔ اس سے حسن فہم میں مدد ملتی ہے۔ گوشہ تنہائی میسر ہو تو از بس غنیمت ہے۔ ہم وہاں بیٹھ کر دوران مطالعہ اپنے احساسات کا بخوبی اظہار کر سکتے ہیں۔ تنہائی میں رونے، آنسو بہانے، دعا کرنے اور سبحان اللہ کہنے میں خاص لطف آتا ہے۔ قاری متعلقہ آیات کے مطابق اپنی باطنی کیفیت کے اظہار کا موقع پاتا ہے۔

    3۔ تلاوت قرآن کا مناسب وقت
    مناسب جگہ کے ساتھ ساتھ موزوں وقت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ انسان اس وقت قرآن شریف پڑھے جب وہ چست، چاک و چوبند اور جسمانی و ذہنی لحاظ سے مستعد و آمادہ ہو۔ اگر انسان تھکا ماندہ ہو، نیند آ رہی ہو، بخار یا درد ہو تو ایسی حالت میں مطالعہ قرآن نہ کرنا چاہیے۔

    4۔ ٹھہرٹھہرکرلطف لے کر پڑھنا
    ہم رک رک کر، ٹھہر ٹھہر کر قرآن مجید پڑھیں، الفاظ کی ادائیگی درست ہو۔ حروف و الفاظ مکمل اور درست ادا کریں۔اپنی خوبصورت آواز کے ساتھ لطف میں پڑھیں، تو یقیناً فائدہ ہوگا۔

    5۔ توجہ ودلجمعی سے تلاوت کرنا
    قرآن کریم کا مطالعہ ہم کم از کم دنیا کی کسی کتاب کی طرح تو کریں۔ ہم جب کسی کتاب، رسالے یا اخبار کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم جو کچھ پڑھتے ہیں، اسے سمجھتے جاتے ہیں۔ جو بات سمجھ نہیں آتی، اسے دوبارہ پڑھتے ہیں تاکہ سمجھ میں آئے۔ قرآن مجید کو بھی ہم کم از کم اسی طرح پڑھیں۔ ذہنی طور پر حاضر ہوں۔ اگر کسی وجہ سے ذہن پراگندہ ہو یا بھٹکنے لگے تو آیات کو دوبارہ پڑھیں۔ ہمیں پہلے پہل اس طرح مطالعہ کرنے میں دقت محسوس ہو گی کیوں کہ ہم الفاظ کو معانی سے الگ کر کے پڑھنے کے عادی ہیں لیکن مسلسل مشق سے ہماری یہ پرانی عادت جاتی رہے گی۔

    6۔ قرآنی احکامات کے سامنے سرتسلیم خم کرنا
    قرآن مجید کے مخاطب تمام انسان ہیں۔ یہ ان سے براہ راست خطاب کرتا ہے۔ اس خطاب میں سوال و جواب ہیں، وعدے وعید ہیں، اوامر و نواہی ہیں۔ لٰہذا پڑھتے وقت ہمارا فرض ہے کہ ہم قرآن کے سوالوں کے جوابات دیں۔ اس کے احکام کے سامنے سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے، سبحان اللہ، الحمد للہ، اللہ اکبر اور استغفر اللہ کے کلمات حسب موقع و محل ادا کریں۔ سجدے کی آیات پر سجدہ کریں۔ دعا کے بعد آمین کہیں۔ جہنم کا بیان پڑھیں تو آگ سے پناہ مانگیں، جنت کا تذکرہ پڑھیں تو پروردگار سے جنت کا سوال کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا یہی طریقہ تھا۔ اس طرح کا طرزِ عمل اختیار کرنے سے ہم پراگندہ ذہنی اور عدم توجہ سے محفوظ رہیں گے۔

    7۔ ہدف۔معانی
    بعض پرجوش مسلمان جب تدبر قرآن کا آغاز کرتے ہیں تو ایک ایک لفظ پر غور و فکر کرتے ہیں مگر چند دنوں تک اسے نبھا پاتے ہیں۔ اکتا کر پھر اسی پرانی ڈگر پہ چل پڑتے ہیں اور فہم و تدبر کے بغیر ہی پڑھنے لکھنے لگتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون سا طریقہ ہے کہ تدبر و تفکر بھی ہو اور غیر معمولی تاخیر بھی نہ ہو۔ آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم آیت کا اجمالی مطلب سمجھتے جائیں۔ جن الفاظ کے معانی، عربی جاننے کے باوجود نہیں جانتے، سیاق و سباق سے ان کے معنی سمجھیں، جیسے ہم انگریزی میں کوئی مضمون یا خبر پڑھتے ہیں تو ہمیں ہر لفظ کا تفصیلی مفہوم معلوم نہیں ہوتا مگر ہم کلام کے اسلوب و انداز اور سیاقِ کلام سے اس عبارت کا اجمالی مطلب سمجھ لیتے ہیں۔

    8۔ آیات کو بار بار پڑھنا
    قرآن شریف سے استفادے کے لیے اب تک جو معروضات پیش ہوئی ہیں، یہ سب عقل سے تعلق رکھتی ہیں جو علم و دانش کا مرکز ہے۔ اب جو طریقہ بیان کیا جارہا ہے یہ قلب کے لیے ہے۔ قلب ایمان کا محل ہے۔ دل انسان کے اندرونی جذبات و احساسات کا مرکز ہے۔ دل میں جتنا ایمان زیادہ ہو گا اتنے ہی اعمال صالح ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان جذبہ و احساس سے عبارت ہے۔ ہمارا اثر قبول کرنا، سرِ تسلیم خم کر دینا، متاثر ہونا، نماز، دعا اور تلاوت کلام اللہ میں ایمان کا بڑھنا سب کا تعلق دل سے ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے :

    و اذا تُلِیت علیھم اٰیتہ زادتھُم اِیماناً (الانفال 2:8) –
    اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے۔“

    قرآن مجید ایمان میں اضافہ کرنے کے اہم ذرائع میں سے ایک ہے۔ ابتدا میں قرآن کریم کی تاثیر کی مقدار کم ہو گی مگر جب بیان کردہ تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے تو اس میں بتدریج اضافہ ہو جائے گا۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں