کیا کائنات کی تخلیق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے ہوئی

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ بہت سارے لوگ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے بنایا ہے، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ آنا ہوتا تو یہ کائنات بھی نہ بنائی جاتی۔ یہ بات کہاں تک درست ہے؟

431 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن نے اپنے سوال میں ایک مشہور حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جس میں ہے کہ

    ’’يامحمد لولاك ما خلقت الأفلاك ‘‘
    اے محمد ! اگر تو نہ ہوتا تو میں کائنات کو تخلیق ہی نہ کرتا

    اس حدیث کے بارے میں یہ بات جان لینی چاہیے کہ یہ اور اسی معنی ومفہوم پر مبنی بعض اور روایات، ان سب کا شمار باطل اور موضوع روایات ہی کے ذمرے میں ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ واضح رہے کہ اس باب کی روایتوں کی بنیاد پر بعض لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جو کچھ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان میں در حقیقت اس کے اثبات کی صلاحیت ہی موجود نہیں ہے۔ تحقیق کی نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ احادیث در حقیقت سند اور درایت، ہر اعتبار سے ناقابل التفات ہیں ۔ ان کی بنیاد پر کوئی دینی مقدمہ قطعاً ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ یہ روایت اوپر بیان کیے گئے الفاظ کے ساتھ امام شوکانی نے اپنی کتاب ” الفوائد المجموعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ ” میں نقل کر کے امام صغانی رحمہ اللہ کی یہ رائے بیان کی ہے کہ یہ ایک “موضوع” اور من گھڑت روایت ہے۔ (ص326)

    اس کے بارے میں محدث العصر شیخ البانی رحمہ اللہ کی بھی یہی رائے ہے ۔ وہ مزید فرماتے ہیں کہ اسی طرح کی ایک مرفوع روایت دیلمی رحمہ اللہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس طرح نقل کی ہے کہ

    ” ایک مرتبہ جبرئیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور فرمایا : اے محمد ! اگر تو نہ ہوتا تو میں جنت کو تخلیق نہ کرتا ، اگر تو نہ ہوتا تو میں دوزخ کو بھی تخلیق نہ کرتا۔ ‘‘

    ابن عساکر کی روایت کے الفاظ ہیں :

    اگر تو نہ ہوتا تو میں دنیا ہی کو تخلیق نہ کرتا۔‘‘

    اس روایت پر بھی کلام کر کے امام البانی رحمہ اللہ نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ یہ بھی منجملہ وہی روایات ہے ۔ (سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ ، رقم 282)

    اسی موضوع سے متعلق ایک روایت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے امام حاکم نے مستدرک میں اس طرح نقل کی ہے :

    ” اللہ تعالٰی نے عیسی علیہ السلام کو وحی کی اور فرمایا : اے عیسی ! محمد پر ایمان لاؤ ، اور اپنی اُمت کے اُن لوگوں کو جو محمد کو اپنے عین حیات پائیں گے؛ اُن کو بھی محمد پرایمان لانے کا حکم دو، کیونکہ اگر محمد نہ ہوتے تو میں آدم ہی کو پیدا نہ کرتا، اگر محمد نہ ہوتے تو میں جنت اور دوزخ کی تخلیق بھی نہ کرتا۔ میں نے پانی پر اپنا عرش بنایا تو وہ ہلنے لگا، چنانچہ جب میں نے اُس پر ” لا الٰہ اللہ محمد رسول اللہ ” لکھا تو وہ اپنی جگہ پر ٹھیر گیا “۔

    حاکم کی اس روایت کو امام ذھبی رحمہ اللہ ” موضوع ” قرار دیا ہے ۔(مستدرک حاکم2/671 ) شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یہ ایک بے بنیاد روایت ہے ۔ (سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ ، رقم 280)

    ایک روایت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے یہ بیان کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

    ” جب آدم سے لغزش ہوئی تو اُنہوں نے کہا: اے پروردگار! میں محمد کے واسطے سے تجھ سے مغفرت طلب کرتا ہوں ۔ اس پر اللہ تعالٰی نے فرمایا : اے آدم ! تو محمد کو کیسے جانتا ہے ؟، دراں حالیکہ ابھی تو میں نے اُسے پیدا بھی نہیں کیا ؟ تب آدم نے کہا: اے میرے رب ! تونے جب مجھے اپنے ہاتھ سے تخلیق کر کے مجھ میں اپنی روح پھونکی تو میں نے اپنا سر اُٹھایا اور تیرے عرش کے پایوں پر لکھا ہوا پایا کہ : ” لا الٰہ اللہ محمد رسول اللہ “، چنانچہ اس سے میں نے جان لیا کہ جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ ملایا ہے وہ ضرور تیری مخلوق میں سے تجھے سب سے زیادہ محبوب ہوگا۔ اس پر اللہ تعالٰی نے فرمایا : تو نے سچ کہا ہے ، اے آدم !، وہی میری خلق میں میرا سب سے زیادہ محبوب ہے۔ اور تو نے چونکہ اس کے واسطے سے مغفرت مانگی ہے؛ تو جا میں نے تجھے بخش دیا ۔ اگر محمد نہ ہوتا تو میں تجھے پیدا ہی نہ کرتا ” ۔ (مستدرک حاکم ، رقم 4228)

    امام حاکم کی اس روایت کو بھی امام ذھبی رحمہ اللہ ” موضوع ” قرار دیا ہے ۔ (مستدرک حاکم ، رقم 4228)

    الغرض اس باب کی تمام روایات کو تحقیق کی نگاہ سے دیکھنے کے بعد ظاہر ہے کہ ہر عاقل آدمی اسی نتیجے پر پہنچے گا کہ اس طرح کی روایتوں سے کوئی دینی استدلال کیا جاسکتا ہے، نہ کسی مذھبی اعتقاد کی بنیاد ہی اِن پر رکھی جاسکتی ہے۔ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اس طرح کی احادیث کی طرف کسی مسلمان کو التفات بھی نہیں کرنا چاہیے۔
    جہاں تک تخلیق کائنات کی بات ہے تو قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے خود اعلان فرمایا ہے کہ وہ اللہ کی بندگی کےلیے پیدا کیے گئے ہیں۔ (الذاریات51:56 )

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں