لڑکیوں کو جہیز دینے کا مسئلہ

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ اگر والدین بچیوں کی شادی پہ ان کو جہیز دیتے ہیں، اور یہ سامان جہیز کی نیت سے نہیں دیتے، بلکہ اپنی بیٹی کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے دیتے ہیں، اور پھر والدین کےلیے ایسا کرنا یعنی یہ سامان دینا کوئی مشکل بھی نہیں ہوتا، یعنی وہ خوشی سے دیتے ہیں تو کیا یہ جائز ہے؟۔

542 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    واضح رہے کہ لڑکی کو جہیز دینے کے سلسلے میں ہم افراط وتفریط کا شکار ہیں۔ حالانکہ یہ ایک معاشرتی مسئلہ ہے۔ جس میں انتہاء پسندی درست نہیں ہے۔ البتہ یہ ایک فطری بات ہے کہ جب والد اپنی لخت جگر کو شادی کے موقع پر گھر سے رخصت کرتا ہے تو حسب استطاعت کچھ سامان میں فرحت محسوس کرتا ہے۔

    محدثین کرام نے اس مسئلہ کو اپنی کتب حدیث میں بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ اپنی سنن میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کرتے ہیں۔

    ”باب جهاذ الرحل ابنته ”
    باپ کی طرف سے بیٹی کوجہیز دینے کا بیان۔

    پھر حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کو چادر مشکیزہ اورا یک تکیہ جس میں روئی کی بجائے اذخر گھاس بھری ہوئی تھی۔ بطور جہیز دیا۔

    اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سامان دیا اس کے لئے لفظ ”جھز” استعمال کیا۔

    مسند ا مام احمد میں سامان کے ساتھ چکی اور دو مٹکوں کا بھی ذکر ہے۔ (مسند امام احمد :1/104)

    اسی طرح جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اپنے حبالہ عقد میں لیا تو وہ حبشہ میں تھیں حضرت نجاشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کا نکاح پڑھایا پھر چار ہزار درہم اپنی طرف سے بطور حق مہر دیا اس کے ساتھ اپنی طرف سے جہیز کا بھی بندوبست کیا حدیث کے الفاظ یہ ہیں:

    ’’ ثم جهزها من عنده…..وجهازها كله من عند النجاشي ولم يرسل اليها رسول الله صلي الله عليه وسلم بشئ ‘‘۔(مسند امام احمد :4/427)
    حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا جہیز حضرت نجاشی کی طرف سے تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق کوئی بندوبست نہیں کیا تھا۔

    مسند امام احمد کی ان احادیث پر احمد بن عبد الرحمٰن البنا الساعاتی بایں الفاظ عنوان قائم کرتے ہیں۔

    ”باب ماجاء في الجهاز ”
    ”جہیز دینے کا بیان”

    احادیث ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

    ”ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جہیز کے متعلق میانہ روی اختیار کیا جائے صرف ضروریات کے پیش نطر اس کا اہتمام ہونا چاہیے۔مبالغہ آمیزی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ہمارے اس دور میں تو اس کے متعلق بہت اسراف کیا جاتا ہے۔جس کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں بلکہ لوگ فخرومباہات کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ غریب آدمی اپنا مکان فروخت کرتا ہے۔بعض دفعہ قرضہ لینے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ایسا کرنا بالکل حرام ہے۔(فتح الربانی :16/177)

    اس سلسلے میں درست بات یہ ہے کہ درج ذیل باتوں کا خاص خیال رکھتے ہوئے جہیز دینے میں کوئی حرج نہیں، لیکن اگر ان باتوں کا خیال نہیں رکھا جاتا تو پھر شادی کے موقع پر لڑکی کو سامان دینا یا لڑکے والے کی طرف سے سامان کا مطالبہ کرنا دونوں حرام ہیں۔ اور پھر جہاں ایسی بات ہو، وہاں لڑکی کی شادی بھی نہ کی جائے، کیونکہ بالفرض اگر وہ وقتی طور سامان جہیز کے بغیر راضی بھی ہوجاتے ہیں، لیکن مستقبل میں لڑکی کی زندگی مشکل بن سکتی ہے۔ اور اسلام قطعاً اس چیز کو برداشت نہیں کرتا کہ اپنے آپ کو مشکلات میں ڈالا جائے۔

    1۔ اسے شادی کا جزو خیال نہ کیا جائے۔کہ اس کے بغیر شادی نامکمل رہتی ہو۔
    2۔ لڑکے والوں کی طرف سے کسی قسم کا مطالبہ نہ ہو ، خودوالد اپنی خوشی سے جو دینا چاہے دےدے۔
    3۔ خود والد بھی حسب استطاعت دے ایسا نہ ہوکہ بچی کے ہاتھ پیلے کرنے کے لئے زندگی بھر قرض کے نیچے دبارہے۔
    4۔ جو کچھ دینا چاہے نہایت سادگی سے خاموشی سے دے دیا جائے اسے شہرت، نمود ونمائش اور فخر ومباہات کاذریعہ نہ بنایا جائے۔ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ عین شادی پر کچھ نہ دیا جائے، بلکہ شادی سے کچھ ماہ قبل یا شادی کے کچھ عرصہ بعد خاموشی سے سامان ضرورت دیا جائے۔
    5۔ اس سلسلے میں عدل وانصاف سے کام لیا جائے۔ باقی بچوں اور بچیوں کے حقوق کا خیال رکھا جائے۔
    6۔ سامان جہیز کے عوض بچی کو قطعی طور سے وراثت سے محروم نہ کیا جائے۔
    7۔ کوئی ناجائز چیز یا جس کا استعمال ناجائز ہوا اسے جہیز میں نہ دیا جائے۔ مثلا ٹی وی اور وی سی آر و غیرہ باالفاظ دیگر فضولیات کے بجائے صرف ضروریات کا خیال رکھا جائے۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں