انشورنس پالیسی لینا

سوال

السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ کیا لائف انشورنس پالیسی کروا سکتے ہیں ہم نے سعودیہ کے علماء سے سنا ہے کہ یہ جائز ہے لکھا ہوا نہیں دیکھا اس کے متعلق رہنمائی فرمائیں ۔

364 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب!!

    بہن شرعی اعتبار سے بیمہ کرانا ناجائز اور حرام ہے کیونکہ یہ سود، دھوکہ، جوا اور اسلام کے قانونِ وراثت سے متصادم ہے، جس کی تفصیل اس طرح ہے کہ بیمہ میں فریقین کو معاہدہ کی تکمیل کے وقت معاوضہ کی اس مقدار کا علم نہیں ہوتا جو وہ ادا کرے گا یا وصول کرے گا، کیونکہ معاوضہ کی مقدار کا علم خطرہ کے وقوع یا عدم وقوع پر موقوف ہوتا ہے جس سے تحفظ، بیمہ کے ذریعے دیا گیا ہے۔ یہ بات اللہ کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا کہ حادثہ پیش آئے گا یا نہیں، اگر آئے گا تو کب آئے گا؟ بعض اوقات طالب بیمہ ایک ہی قسط ادا کرنے کے بعد حادثے سے دوچار ہو جاتا ہے اور رقم بیمہ کا حقدار بن جاتا ہے جب کہ بعض اوقات پوری اقساط ادا کرنے کے باوجود حادثہ پیش نہیں آتا۔ اس طرح تحفظ فراہم کرنے والی بیمہ کمپنی کو معاہدہ کے وقت علم نہیں ہوتا کہ وہ کیا وصول کرے گی اور کیا ادا کرے گی کیونکہ بعض اوقات ایک ہی قسط وصول کرنے کے بعد حادثہ پیش آ جاتا ہے اور اسے بیمہ کی رقم طالب بیمہ کو ادا کرنا پڑتی ہے اور بعض اوقات پوری اقساط وصول کر لیتی ہے لیکن حادثہ پیش ہی نہیں آتا۔ اس طرح یہ بیمہ کا معاملہ سراسر ایک ’’اندھا سودا‘‘ ہے جس میں دھوکے کا پہلو نمایاں طور پر موجود ہے۔ بیمہ کا کاروبار اس لئے بھی حرام ہے کہ اس میں جوا پایا جاتا ہے جو قرآن کی نظر میں ایک شیطانی عمل ہے۔
    واضح رہے کہ حصول زر کی ہر وہ شکل جوا ہے جس میں اسے حاصل کرنے کا دارومدار محض اتفاق پر ہو۔ جوئے کی تعریف بیمہ کے کاروبار پر اس طرح صادق آتی ہے کہ جوئے میں فریقین اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ وہ دوسرے کو ایک مقررہ رقم کوئی حادثہ پیش آنے پر ادا کرے گا۔ کاروبار بیمہ میں بھی یہی ہوتا ہے کہ بعض اوقات طالب بیمہ ایک قسط ادا کرنے کے بعد مر جاتا ہے تو اس کے نامزد کردہ وارث کو ادا کردہ رقم سے کئی گنا زیادہ رقم مل جاتی ہے، اس کا بایں طور مرنا ہی ایک اتفاقی حادثہ ہے جو نامزد وارث کیلئے کثیر رقم ملنے کا باعث بنا ہے۔ تھوڑی سی محنت کر کے اتفاقی طور پر بہت زیادہ رقم ہتھیا لینا ’’مَیسر‘‘ کہلاتا ہے جس سے قرآن کریم نے منع کیا ہے۔
    بیمہ کے کاروبار میں سود کی تمام اقسام پائی جاتی ہیں کیونکہ اگر حادثہ کے وقت اس کے مساوی رقم ملے تو ایک طرف سے نقد ادائیگی اور دوسری طرف سے ادھار ہونے کی بناء پر یہ ادھار کا سود ہے جسے شرعی اصطلاح میں ’’ربا النسیئہ‘‘ کہا جاتا ہے اور اگر وہ ادا کردہ رقم سے زیادہ ہے تو یہ اضافے کاسود ہے جسے ’’ربا الفضل‘‘ کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ زائد رقم اس کی ادا کردہ بیمہ کے کاروبار میں سود کی تمام اقسام پائی جاتی ہیں کیونکہ اگر حادثہ کے وقت اس کے مساوی رقم ملے تو ایک طرف سے نقد ادائیگی اور دوسری طرف سے ادھار ہونے کی بناء پر یہ ادھار کا سود ہے جسے شرعی اصطلاح میں ’’ربا النسیئہ‘‘ کہا جاتا ہے اور اگر وہ ادا کردہ رقم سے زیادہ ہے تو یہ اضافے کاسود ہے جسے ’’ربا الفضل‘‘ کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ زائد رقم اس کی ادا کردہ رقم کے عوض ملتی ہے۔
    سود یہی ہوتا ہے کہ ایک آدمی کچھ رقم کسی دوسرے کو دیتا ہے پھر ایک خاص مدت کے بعد اس رقم کے عوض زائد وصول کرتا ہے، نیز معینہ مدت تک زندہ رہنے اور تمام اقساط ادا کرنے کی صورت میں طالب بیمہ مجموعی رقم سے زائد زر بیمہ لینے کا مستحق ہوتا ہے، یہ اضافہ کے ساتھ خطیر رقم یکمشت یا بالاقساط لے سکتا ہے، یہ سود کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ پھر یہ کاروبار بیمہ ضابطہ وراثت سے بھی متصادم ہے کیونکہ اس پر عمل کرنے سے قانونِ وراثت اس طرح مجروح ہوتا ہے کہ مرنے کی صورت میں زربیمہ کا مالک وہ نامزد شخص بن جاتا ہے جو طالب بیمہ نے اپنی زندگی میں مقرر کیا ہوتا ہے، باقی ورثاء اس سے محروم رہتے ہیں حالانکہ اس کے ترکہ میں تمام شرعی ورثاء شریک ہوتے ہیں۔
    بہرحال بیمہ کا کاروبار دھوکہ، جوا، سود اور قانون وراثت سے متصادم ہونے کی وجہ سے حرام اور ناجائز ہے۔ (واللہ اعلم)

ایک جواب چھوڑیں