جنت ماں کے قدموں کے نیچے حدیث کی تحقیق

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

گروپ میں بہن نے ایک مضمون پیش کیا، جس میں لکھا تھا کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے، اس پر ایک اور بہن نے سوال کیا کہ یہ جو حدیث زبان زد عام ہے، کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے، اس کی حقیقت کیا ہے۔؟

2398 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    یہ حدیث الکنیٰ والاسماء للدولابی اور مسند الشہاب القضاعی میں ان الفاظ کے ساتھ آئی ہے۔

    أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِيٍّ الْحَسَنُ بْنُ خَلَفٍ الْوَاسِطِيُّ، ثنا عُمَرُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ شَاهِينَ، ثنا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ الْمُهْتَدِي بِاللَّهِ بْنِ الْوَاثِقِ بِاللَّهِ، ثنا عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْوَاسِطِيُّ، ثنا مَنْصُورُ بْنُ الْمُهَاجِرِ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ الْأَبَّارُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْجَنَّةُ تَحْتَ أَقْدَامِ الْأُمَّهَاتِ
    یہ روایت غیر ثابت شدہ ہے ۔ تفصیل ان کتب میں دیکھی جاسکتی ہے۔

    1۔ مقاصد الحسنۃ/امام عبدالرحمن السخاوی رحمہُ اللہ ۔حدیث رقم 373
    2۔ كشف الخفاء ومزيل الالباس عما اشتهر من الاحاديث على ألسنة الناس / إِمام إِسماعیل محمد بن العجلونی رحمہُ اللہ۔حدیث 1078
    3۔ سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة/ إِمام محمد ناصر الدین الالبانی رحمہُ اللہ ۔حدیث 593

    الجنۃ تحت اقدام الامہات (جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے) ان الفاظ کے ساتھ تو حدیث ثابت نہیں۔ لیکن اسی معنیٰ کی ایک اور حدیث جاہمہ السلمی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بھی ہے۔ کہ جس میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے جہاد میں شمولیت کی اجازت طلب کی ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کیا تمہاری ماں ہے؟ جاھمۃ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا جی ہاں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا

    ’’ فَالْزَمْهَا فَإِنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ رِجْلَيْهَا‘‘۔(نسائی:3117، ابن ماجہ:2781)
    پس تم اس کے ساتھ رہو ، کیونکہ جنت اُس کے دونوں قدموں کے نیچے ہے۔

    یہ حدیث حسن ہے۔ لیکن یہ معاملہ اُس صحابی رضی اللہ عنہ کے لیے خاص تھا کہ انہیں جہاد میں شامل ہونے کی بجائے ان کی ماں کی خدمت کا حکم دیا گیا کہ جو کچھ تم جہاد میں شامل ہو کر پانا چاہتے ہو، یعنی جنت، تو وہ تمہیں اپنی ماں کی خدمت کے بدلے میں بھی مل سکتی ہے۔ لیکن ایسی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہر اس صحابی رضی اللہ عنہ کو نہیں فرمائی جس کی بوڑھی والدہ زندہ تھی اور وہ صحابی رضی اللہ عنہ جہاد میں شامل ہونا چاہ رہے تھے۔ اگر یہ بات عام ہوتی تو ہر وہ صحابی جس کی بوڑھی والدہ زندہ تھیں کبھی جہاد میں شامل نہ ہو پاتا، اور اس کے بعد میں اُمت میں اس پر عمل رہتا، پس یہ معاملہ صِرف اس ایک صحابی کو جہاد میں شامل ہو کر جنت پانے کی کوشش کی بجائے اُس کی والدہ کی خدمت کر کے جنت پانے کی کوشش تک محدود ہے ۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں