حضور پاک کے وسیلہ سے دعا مانگنا

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ کیا حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے دعا مانگی جاسکتی ہے؟ اگر نہیں تو کیوں؟ کیونکہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم تو ہمارے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ پھر کیوں نہیں ان کے وسیلہ سے دعا مانگی جاسکتی؟

850 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن سب سے پہلے تو آپ یہ جان لیں کہ دعا بھی عبادت ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔

    وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ۔(سورۃ الغافر:60)
    اورتمہارے رب کا فرمان (سرزد ہوچکا ہے) کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے خودسری کرتے ہیں وه عنقریب ذلیل ہوکر جہنم میں پہنچ جائیں گے۔

    اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا

    حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ ذَرِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْهَمْدَانِيِّ عَنْ يُسَيْعٍ الْكِنْدِيِّ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الدُّعَاءَ هُوَ الْعِبَادَةُ ثُمَّ قَرَأَ وَقَالَ رَبُّكُمْ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ۔ (ابن ماجہ:3828)
    حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دعا ہی عبادت ہے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی (وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ) اور تمہارے رب نے فرمایا: مجھے پکارو، میں تمہاری پکار قبول کروں گا۔

    جب یہ ثابت ہوگیا کہ دعا عبادت ہے، تو عبادت بارے یہ اصول ہے کہ عبادات میں اصل حرمت ہے، الا کہ اس کی حلت کی دلیل آجائے۔ مطلب یہ ہے کہ انسان کوئی بھی ایسا کام جو وہ عبادت اور ثواب کی نیت سے کررہا ہے، وہ تب ہی کرسکتا ہے، اوراس وقت اس کی اجازت ہے، جب اس کی دلیل قرآن وحدیث میں موجود ہو۔ لیکن جب کسی عبادت کی دلیل قرآن وحدیث میں موجود نہیں، تو وہ کام نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ دلیل کے نہ ہوتے ہوئے اگر کوئی کرتا بھی ہے تو ایک تو وہ عمل اللہ کی دربار میں قابل قبول نہیں ہوگا، دوسرا کرنے والا گناہگار بھی ہوگا۔

    کیونکہ شریعت اسلامیہ میں حق وصداقت کا معیار کتاب وسنت ہے اور ہر وہ عمل جو بظاہر کتنا ہی خوب صورت کیوں نہ معلوم ہوتا ہو اگر اس کا ثبوت قرآن یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے نہیں تو وہ ہمارے لئے دلیل یا حجت نہیں چاہئے اس کا عام رواج کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔ اس کے بعد اگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کسی چیز کا ثبوت مل جائے اور وہ قرآن وحدیث کے کسی حکم سے متصادم نہیں تو وہ بھی قابل قبول ہوگا۔ لیکن جس کام کا طریقہ واضح طور پر قرآن وسنت میں بیان کردیا گیا ہو اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عمل بھی اس کے مطابق ہو اسے چھوڑ کر دوسرا طریقہ نکالنا یا اس کے برعکس کوئی کام شروع کردینا قرآن کے اس ارشاد کے مطابق اس نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کی مخالفت کرکے جہنم کا راستہ اختیار کیا ہے۔

    وَمَن يُشَاقِقِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ۔(سورۃ الانفال:13)
    اور جو اللہ کی اور اس کے رسول کی مخالفت کرتا ہے سو بےشک اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے۔

    باقی آج کل جو لوگ اپنی دعاؤں میں مسلسل کہتے ہیں کہ اے اللہ! نبی کے وسیلہ سے، نبی کے طفیل، نبی کے واسطے، نبی کے صدقے ہماری دعا قبول فرما، ہماری فریاد پوری فرما، یہ درست نہیں۔ اور نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور تابعین کرام کی دعاؤں میں یہ طریقہ ملتا ہے۔ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا وسیلہ جائز ہوتا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے لیے کیا رکاوٹ تھی کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے دعا نہ مانگی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو لے آئے۔ انہیں صرف اتنا ہی تو کہنا تھا کہ اے اللہ! اپنے نبی (صل اللہ علیہ وسلم) کے طفیل ہم پر بارش برسا۔امیر المومنین نے اتنا تردد کیوں کیا؟ اس لیے کہ وہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے کہ جن کے اسلام کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی تھی۔ کس طرح ممکن تھا کہ امیرالمومنین کی حق گو اور حق شناس زبان سے عقیدے کی اتنی بڑی خطا کا ارتکاب ہوتا۔

    حدیث کچھ اس طرح ہے

    حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُثَنَّى عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ إِذَا قَحَطُوا اسْتَسْقَى بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِينَا وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا قَالَ فَيُسْقَوْنَ۔(بخاری:1010
    ہم سے حسن بن محمد بن صباح نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن عبد اللہ بن مثنی انصاری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ عبد اللہ بن مثنی نے بیان کیا، ان سے ثمامہ بن عبد اللہ بن انس رضی اللہ عنہ نے، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ جب کبھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قحط پڑتا تو عمر رضی اللہ عنہ حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعا کرتے اور فرماتے کہ اے اللہ! پہلے ہم تیرے پاس اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ لایا کر تے تھے۔ تو تو پانی برساتا تھا۔ اب ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں تو تو ہم پر پانی برسا۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ چنانچہ بارش خوب ہی برسی۔

    لہٰذا دعا مانگتے ہوئے یوں کہنا اے اللہ! نبی کے وسیلہ سے، نبی کے طفیل، نبی کے واسطے، نبی کے صدقے ہماری دعا قبول فرما، ہماری فریاد پوری فرما، یہ قرآن وسنت کے خلاف عمل ہے۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں