خواتین کا بال کٹوانا اور ڈاکٹر فرحت ہاشمی صاحبہ حفظہا اللہ

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

گروپ میں عورتوں کے بال کٹوانے سے متعلق تین سوال پیش ہوئے، تینوں سوالوں کے جواب کا خلاصہ یہ تھا کہ ’’ عورتوں کےلیے شرعی عذر کے بغیر سر کے بال کٹوانا جائز نہیں‘‘ لیکن ایک بہن نے محترمہ استاذہ ڈاکٹر فرحت ہاشمی حفظہا اللہ کا ایک کلپ سینڈ کیا، جس میں ڈاکٹر صاحبہ عورتوں کے بالوں کے بارے میں فرماتی ہیں کہ بال کٹوانے کی ممانعت نہیں ہے، خواتین بال کٹوا سکتی ہیں، یہ ان کےلیے جائز ہے۔ چاہے ضرورت ہو یا نہ ہو، اس حوالے سے جو منع ہے وہ دو چیزیں ہیں ایک مردوں کی طرح نہ لگیں یعنی بوائے کٹ نہ ہو دوسرا غیرمسلموں کی مشابہت نہ ہو۔ اور دلیل کے طور پر صحیح مسلم، کتاب الحیض سے یہ روایت پیش کی

وَحَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُعَاذٍ العَنْبَرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبةُ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ حَفْصٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمنِ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ أَنَا وَأَخُوهَا مِنَ الرَّضَاعَةِ. فَسَأَلَهَا عَنْ غُسْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْجَنَابَةِ؟ «فَدَعَتْ بِإِنَاءٍ قَدْرِ الصَّاعِ فَاغْتَسَلَتْ وَبَيْنَنَا وَبَيْنَهَا سِتْرٌ وَأَفْرَغَتْ عَلَى رَأْسِهَا ثلَاثًا» قَالَ: «وَكَانَ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْخُذْنَ مِنْ رُءُوسِهِنَّ حَتَّى تَكُونَ كَالْوَفْرَةِ۔(صحیح مسلم)
ابو بکر بن حفص نے ابو سلمہ بن عبد الرحمن ( بن عوف جوحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی بھانجے تھے) سےر وایت کی ، انہوں نے کہا:میں اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا رضاعی بھائی(عبد اللہ بن یزید) ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس نے ان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل جنابت کے بارے میں سوال کیا، چنانچہ انہوں نے ایک صاع کے بقدربرتن منگوایا او راس سے غسل کیا ، ہمارے اور ان کے درمیان (دیوار وغیرہ کا) پردہ حائل تھا ، اپنے سر پر تین دفعہ پانی ڈالا۔ ابو سلمہ نے بتایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اپنے سر ( کے بالوں ) کو کاٹ لیتی تھیں یہاں تک کہ وہ وفرہ (کانوں کے نچلے حصے کی لمبائی کے بال ) کی طرح ہو جاتے ۔

اس حدیث کو پیش کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحبہ فرماتی ہیں کہ بعض علماء نے اس پر کہا کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد انہوں نے کیے، تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ کوئی ایسی چیز جو ناپسند ہو وہ میں نہیں سمجھتی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی ازواج مطہرات کرلیں، بعض علماء نے کہا کہ بیماری کی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ گر گئے ہوں، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اکثر کے کیسے گر گئے؟۔ ڈاکٹر صاحبہ نے خواتین کے بال کاٹنے کو بلاضرورت جائز کہا ہے۔ اس بارے میں راہنمائی فرمائیں

979 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    سب سے پہلے تو بہن کا شکریہ اداء کرتا ہوں، کہ انہوں نے استاد محترمہ ڈاکٹر فرحت ہاشمی حفظہا اللہ کا کلپ سینڈ کیا، دوسری بات شرعی عذر کی بناء پر خواتین کا بال کٹوانے میں کسی کا اختلاف نہیں۔ لیکن کیا خواتین شرعی عذر کے بغیر بھی بال کٹواسکتی ہیں؟ ڈاکٹر فرحت ہاشمی حفظہا اللہ کے علاوہ مجھے کسی عالم دین کی رائے نہیں ملی کہ خواتین بغیرعذر بھی بال کٹوا سکتی ہیں؟۔ سوائے شیخ ابن باز کے، شیخ صاحب بھی بغیرضرورت کے قائل نہیں بلکہ وہ بھی یہی فرماتے ہیں کہ اگر تو کچھ نہ کچھ بال لینے میں عورت کی خوبصورتی دوبالا ہوتی ہے، تو وہ اس نیت پر لے سکتی ہے اور یہ کٹنگ اس کی خوبصورتی کی بڑھوتری ہو۔ ورنہ کسی عورت کےلیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بال کٹوائے۔ (واللہ اعلم)

    اور جہاں تک ڈاکٹر صاحبہ کے جواز کے مؤقف کی بات ہے تو ڈاکٹر صاحبہ کے بقول بھی بہرحال یہ عمل جواز کے حد تک ہے۔ اور جواز بارے یہ نوٹ فرمالیا جائے کہ جس عمل کو جائز کہا جائے، اس پر لازمی نہیں ہوتا کہ عمل بھی کیا جائے، بلکہ اس کا مقصد ومطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی اس پر عمل کرلے تو اس پر گناہ نہیں۔ لیکن اس جواز کو دلیل بناکر اس پر عمل شروع کردینا، اورعمل کرنے کا کہنا اور دلیل کے طور پر جائز ہونے کی بات کرنا یہ کسی بھی صورت درست نہیں ہوتا۔

    استاد محترمہ حفظہا اللہ کے جواز کہنے کا عمل درست ہے یا نہیں؟

    1۔ عورت کی خوبصورتی بال کٹوانے میں یا بال لمبے رکھنے میں؟ یہ بات شک وشبہ سے بالا تر ہے کہ عورت کی خوبصورتی، حسن وجمال اس کے خوبصورت لمبے اور گھنے بالوں میں ہے۔ جب خوبصورتی وحسن وجمال بالوں میں ہے تو پھر کٹوانے پر جواز کا کہنا، سمجھ نہیں آتا۔ ہاں اگر کسی عورت کےبال اتنے بدصورت ہوں کہ اس کا کٹوانا ضروری تو اس کی با ت الگ ہے۔

    2۔ مغربی تہذیب سے متاثر خواتین بالوں کو فیشن کے طور پر کاٹتی ہیں، اور مشرقی خواتین میں یہ تہذیب بھی مغرب کی طرف سے آئی ہے۔ تو اس پرفتن دور میں عورتوں کےلیے بالوں کو کٹوانے کا جواز فراہم کرنا سراسر مغربی تہذیب کی آبپاری کرنا ہے۔ جس کا رسک کسی بھی صورت نہیں لیا جاسکتا۔

    3۔ بالوں کو کاٹنے کے حوالے سے جو ازواج مطہرات کا عمل پیش کیا جاتا ہے وہ کئی ایک اعتبار سے محل نظر ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ ازواج مطہرات اپنے بالوں سے لے لیتی تھیں حتی کہ وہ وفرہ کی مانند ہوتے تھے۔ (صحیح مسلم ، الحیض:728) اس کا معنیٰ (واللہ اعلم) یہ ہے کہ وہ اپنے بالوں کا خاص انداز سے جوڑا بنالیتی تھیں۔ جو وفرہ کی شکل میں نظر آتاتھا۔ اورپھر اس حدیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے طہارت کےمسائل میں بیان کیا ہے یہ بھی اس بات کا قرینہ ہے کہ اس سے مراد بالوں کا کاٹنا نہیں ہے بلکہ غسل کےموقع پر ان کا جوڑا بنانا ہے۔ عموماً خواتین غسل کے وقت یہ عمل کرتی ہیں، اور اگر اس سےمراد کاٹنا ہوتو بھی محدثین نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کےبعد ازواج مطہرات نے سادگی اورترک زینت کے طور پر ایسا کیا تھا۔

    3۔ عورتوں کےلیے بال رکھنا اور نہ کٹانا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر سے بھی ثابت ہے۔ جیسا کہ واصلہ مستوصلہ والی احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت بال کٹانے کا رواج نہیں تھا، عورتوں کے بال پورے ہوتے تھے اور چھوٹے بالوں والی عورتیں وصل سے کام لیتی تھیں تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ان پر لعنت بھیجی۔

    ’’نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: سر کے قدرتی بالوں میں مصنوعی بال لگانے والیوں پر اور لگوانے والیوں پر اور گودنے والیوں پر اورگدوانے والیوں پر اللہ نے لعنت بھیجی ہے۔ ‘‘۔( بخاری)

    4۔ ازواج مطہرات کی جو حدیث ہے وہ موقوف ہے۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی تقریر بھی نہیں۔ لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر کے سامنے موقوف روایت پر عمل نہیں ہوسکتا۔

    5۔ سعودی عرب کے مفتی عام فضیلۃ الشیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ فرماتے ہیں

    ’’ عورتوں کے لیے سر کے بال مونڈنا جائز نہیں ہے ،کیونکہ امام نسائی رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ

    ’’ نهي رَسُوْلُ اللهِ أنْ تَحْلِقَ الْمَرْأةُ رَأسَهَا‘‘۔ (سنن النسائي:5052)
    “نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو سرمونڈنے سے منع کیا ہے۔

    اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہی ثابت ہوچکی ہے اور نہی تحریم پر دلالت کرتی ہے اگر اس کی کوئی روایت معارض نہ ہو۔ ملا علی قاری ’’ المرقاة شرح مشکوٰة ‘‘ میں فرماتے ہیں :

    ’’ عورت کے لیے سر کے بال مونڈنا اس لئے حرام ہے، کہ عورتوں کی مینڈھیاں ہیئت اور حسن و جمال میں مردوں کی داڑھی کی مانند ہیں۔ (مجموع فتاویٰ فضیلة الشیخ محمد إبراہیم :2/49)

    6۔ اللہ تعالیٰ نے مرد وعورت کی ساخت میں فرق رکھا ہے اور یہ سخت ناپسند کیا ہے کہ مرد وعورت ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرتے ہوئے اپنی اس اصل ساخت کو بدلنے کی کوشش کریں

    7۔ عورت اپنے سر کے بال نہیں کٹواسکتی کیونکہ اس سے مردوں کی مشابہت لازم آتی ہے، کیونکہ کتب احادیث میں مردوں کے بالوں کی لمٹ بیان کرکے باقی بالوں کو کٹوانے کا حکم ہے، جبکہ عورتوں کےلیے ایسی بات نہیں۔ لہذا اگر کوئی عورت اپنے بال کٹواتی ہے تو وہ مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہے۔ جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

    لعن اللہ المشتبھین من الرجال بالنساء والمشتبھات من النساء بالرجال۔(صحیح البخاری:5885)
    اللہ لعنت کرے ان مردوں پر جو عورتوں سے مشابہت اختیار کرتے ہیں اور (اللہ لعنت کرے)ان عورتوں پر جو مردوں سے مشابہت اختیار کرتی ہیں۔

    لہذاعورت کےلیے بال کٹوانا منع ہے، باقی رہی ایسی خواتین کے جن کے بال خوبصورتی کے بجائے ان کےلیے خوبصورتی کو کم کرنے کا مسئلہ بنا رہے ہوں، یا بال کٹوانا ضرورت ہو تو ایسی خواتین اپنے بالوں میں سے کچھ لے سکتی ہیں، لیکن وہ بھی اس طرح کے ایک تو وہ بدصورت نہ لگیں، دوسرا مشابہت میں نہ آجائیں، تیسرا جتنی ضرورت ہو اتنے لیے جائیں۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں