رشتہ داروں اورغیرمسلموں کو صدقہ دینا

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ کیا صدقہ ہم اپنے رشتہ داروں کو یا گھر میں کام کرنے والیوں کو یا غیرمسلموں کو دے سکتے ہیں؟

387 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! صدقہ کے حوالے سے حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

    خير الصدقة ما كان عن ظهر غنى وابدأ بمن تعول ۔ (بخاری:1360)
    بہترین صدقہ وہ ہے جو غنی کے بعد کیا جائے۔اور آپ اپنے زیر کفالت لوگوں سے ابتداء کریں۔

    زیر کفالت میں جوبھی لوگ ہوں چاہے وہ رشتہ دار ہوں، یا کام کرنے والے، جو صدقہ کے مستحق ہوں، تو ان کو صدقہ کا مال دیا جاسکتا ہے۔ باقی جہاں تک صدقہ کے حوالے سے غیرمسلموں کو دینے کی بات ہے تو اس بارے جان لیجیے کہ صدقہ فرض صرف اور صرف مؤمن وموحد شخص کو ہی دیا جاسکتا ہے ۔ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

    أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ ۔(بخاری:1395)
    یقینا اللہ تعالى نے ان (اہل ایمان) پر ان کے مالوں میں صدقہ فرض کیا ہے جو ان میں سے اغنیاء سے وصول کرکے انہی میں سے فقراء کو دیا جائے گا۔

    لہٰذا کافروں کو صدقہ فرض کے اموال اور ميوہ جات دینا جائز نہیں ہے، چاہے وہ غریب ہو، يا مسافر یا قرض دار ہی کیوں نہ ہو۔ہاں البتہ کافر غریب شخص کو عام صدقات یعنی نفلی صدقات دینا جائز ہے، اور تحفے تحائف کے ذریعہ آپسی لین دین کرنا بھی جائز ہے، بشرطیکہ ان کافروں کی طرف سے کوئی ایسا ظلم نہ ہو جس کی بناء پر تعلقات رکھنا ممنوع ہوجاتا ہے، اس لئے کہ الله تعالى کا فرمان ہے:

    لاَ يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ۔(سورۃ الممتحنۃ:8)
    جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں لڑی اور تمہیں جلاوطن نہیں کیا ان کے ساتھ سلوک واحسان کرنے اور منصفانہ بھلے برتاؤ کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں روکتا، بلکہ اللہ تعالیٰ تو انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں