طلاق کے الفاظ اور نیت کا عمل دخل

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ طلاق کن الفاظ سے واقع ہوتی ہے، یعنی مرد کیا الفاظ بولے تو طلاق واقع ہوجائے گی؟ اور طلاق میں نیت کا عمل دخل کتنا اور کہاں کہاں ہوتا ہے؟

845 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! طلاق کےلیے صریح الفاظ کا بولنا یعنی ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘یا ’’میں نے تمہیں طلاق دی‘‘ یا ’’ میں نے تمہیں طلاق دے دی ہے‘‘ یا ’’ میں تمہیں طلاق دے چکا ہوں‘‘ ضروری ہے۔ اور جب طلاق کے صریح الفاظ بولے جائیں گے، تو پھر نیت کا بھی اعتبار نہیں ہوگا۔ یعنی طلاق کے صریح الفاظ بولنے کے بعد خاوند یہ نہیں کہہ سکتا کہ میری طلاق دینے کی نیت نہیں تھی۔ کیونکہ حدیث مبارکہ ہے

    عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: >ثَلَاثٌ جَدُّهُنَّ جَدٌّ، وَهَزْلُهُنَّ جَدٌّ: النِّكَاحُ، وَالطَّلَاقُ، وَالرَّجْعَةُ۔(ابوداؤد:2194)
    سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تین باتیں ایسی ہیں اگر کوئی ان کو حقیقت اور سنجیدگی میں کہے ، تو حقیقت ہیں اور ہنسی مزاح میں کہے ، تو بھی حقیقت ہیں ۔ نکاح ، طلاق اور ( طلاق سے ) رجوع ۔

    لیکن اگر خاوند نے صریح الفاظ تو نہیں بولے بلکہ کنایۃً ایسے الفاظ استعمال کیے ہیں، مثلا ’’میں تمہیں رہا کرتا ہوں‘‘، یا ’’میں تمہیں آزاد کرتا ہوں‘‘، یا ’’میں تمہیں چھوڑتا ہوں‘‘یا ’’ میں تمہیں فارغ کرتا ہوں‘‘ یا ’’ میں نے تمہیں فارغ کردیا ہے‘‘ تو اس طرح کے الفاظ بولنے پراگر سیاق وسباق سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ خاوند کی نیت طلاق کی ہی تھی، تو پھر طلاق واقع ہوجائے گی۔ ورنہ طلاق واقع نہیں ہوگی۔

    جیسا کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک منکوحہ کو طلاق دینے کے لئے یہ الفاظ استعمال کئے کہ ’’ تم اپنے گھر چلی جا۔‘‘ حدیث مبارکہ ہے

    حَدَّثَنَا الحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا الوَلِيدُ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: سَأَلْتُ الزُّهْرِيَّ، أَيُّ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعَاذَتْ مِنْهُ؟ قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: أَنَّ ابْنَةَ الجَوْنِ، لَمَّا أُدْخِلَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدَنَا مِنْهَا، قَالَتْ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ، فَقَالَ لَهَا: «لَقَدْ عُذْتِ بِعَظِيمٍ، الحَقِي بِأَهْلِكِ»۔(بخاری:5254)
    ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا ، کہا ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا ، کہا ہم سے امام اوزاعی نے بیان کیا ، کہا کہ میں نے زہری سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کن بیوی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پناہ مانگی تھی ؟ انہوں نے بیان کیا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ جون کی بیٹی ( امیمہ یا اسماء) جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں ( نکاح کے بعد ) لائی گئیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے تو اس نے یہ کہہ دیا کہ میں آپ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ تم نے بہت بڑی چیز سے پناہ مانگی ہے ، اپنے میکے چلی جاؤ ۔

    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کہنا کہ ’’ تم اپنے گھر چلی جاؤ‘‘ طلاق کےلیے صریح الفاظ تو نہیں، لیکن چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیت طلاق کی تھی۔ اس لئے سیاق و سباق کے پیش نظر یہ الفاظ طلاق کےلئے کافی تھے۔ لیکن جب یہی الفاظ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کےلئے استعمال کئے :’’ تو اپنے گھر چلی جا۔‘‘۔ (بخاری :4418) تو ان الفاظ سے طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی نیت طلاق کی نہ تھی۔

    خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب طلاق کےلیے صریح الفاظ بولے جائیں گے تو طلاق واقع ہوجائے گی، لیکن اگرصریح الفاظ نہیں بولے گئے بلکہ اشارہ کنایہ سے کام لیا گیا ہے، تو اس وقت سیاق وسباق اور خاوند کی نیت کا اعتبار کیا جائے گا۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں