مسئلہ تقدیراور ایک شبہے کا ازالہ

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

ایک بہن نے سوال کیا ہے کہ جب ہر کام اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہوتا ہے، جب ہماری جنت ودوزخ لکھی جا چکی ہے تو پھر سوال وجواب، سزا وجزا کیوں؟

270 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    جو بات آپ نے بیان کی ہےے اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مرضی سے ایک انسان کے اعمال پہلے سے طے کر رکھے ہیں جن کے مطابق وہ کسی کو جنت اور کسی کو جہنم میں ڈال دے گا۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔ اس جبرو اختیار کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہمیشہ سے ہر بات کا علم ہے۔ اس کے علم سے ہم نیک یا برے اعمال کرنے پر مجبور نہیں ہو جاتے۔
    مسئلہ تقدیرکی اصلیت دو چیزیں ہیں ایک علم ایک قدرت ،علم اس طرح کہ بندے کو جب خدا نے پیدا کیا تو اس نے نیکی کرنی تھی یا بدی۔ اس کا علم اللہ تعالی کوپہلے ہی تھا۔سو اس کو لوح محفوظ کی صورت میں پہلے ہی لکھ دیا۔ لوگ جوکہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے لکھا اس لیے بندے نے کیا یہ غلط ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ بندے نے کرنا تھا۔ اس لیے اللہ تعالی نے لکھاہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے قلم کوحکم ہوا’’اُکتب‘‘ لکھ۔ قلم نے کہا’’مااکتب‘‘(میں کیالکھوں) حکم ہوا۔
    «اکتب القدرفکتب ماکان وماہوکائن الی الابد»
    ترجمہ :۔تقدیرلکھ!پس قلم نے جوکچھ ہوچکا تھا اورجوکچھ ہوناتھا لکھ دیا۔
    بتلایئے! اس میں اللہ کا کیا قصور؟ ہاں اگراللہ کا لکھنا بندے کےلیے رکاوٹ ہوتا تو پھر اعتراض کرنے والا اعتراض کرسکتا تھا کہ بندے کا کیا قصور؟ لیکن جب ایسا نہیں بلکہ بندے نے جو کچھ کرناتھا قلم نے خدا کے حکم سے وہی لکھا۔ پھر اتنے پربھی بندے کو نہیں پکڑا۔ بلکہ بندے نے جب فعل کرلیا اس وقت پکڑا۔ پس اب علم کے لحاظ سے کوئی اعتراض نہ رہا زیادہ وضاحت کے لیے اس کویوں سمجھئے کہ اگربالفرض خدا کوعلم نہ ہوتا تو بھی بندے نے نیکی یا بدی کرنی تھی۔ تو اللہ تعالی کوعلم ہونے سے کونساجبرآ گیا۔
    رہا قدرت کاملہ ، سو یہ نہایت نازک ہے بڑے بڑے عقلاء اس میں حیران ہیں۔ خدا تعالی بندوں کوہرطرح سے آزماتا ہے۔ بدنی آزمائشیں بھی آتی ہیں ،عقلی بھی۔ تقدیر کا مسئلہ عقلی آزمائش ہے مگر اس کو ایسا بھی نہیں کیا کہ بالکل مبہم رکھا ہو۔ بلکہ ایمان کے لیے جس قدرضرورت تھی اتنا پردہ اٹھا دیا۔ تفصیل اس کی یہ کہ ہرمخالف موافق اس بات کوتسلیم کرتاہے کہ اللہ تعالی ہرنقص وعیب سے پاک ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ جبر جیسا کوئی نقص نہیں۔ ایک تو اس میں حکمت کا خلاف ہے کہ خود ہی ایک فعل کرے اور اس پرسزا دے۔ دوسرے اس میں بندے کو ناحق تکلیف دیناہے۔ جس کو ادنیٰ سے ادنیٰ عقل والا بھی اچھا نہیں سمجھتا۔ ایک کی جان دکھ میں ہو۔ دوسرے کا تماشہ ، اور اس میں بھی شبہ نہیں کہ اللہ تعالی قادرمطلق ہے۔ جس کا اثر اس کا خالق ہوناہے۔ اگربندہ بھی خالق ہو تو یہ شرک فی الربوبیت ہے جو بڑا شرک ہے۔ پس معلوم ہوا کہ بندہ مجبوربھی نہیں اورمختارمطلق بھی نہیں۔ بلکہ اس کی حالت بین بین ہے جس کو کسب اور اکتساب سے تعبیر کیا جاتاہے۔ پس ایمان کے لیے اتنی معرفت کافی ہے۔ کیونکہ ایمان کے لیے یہ ضروری نہیں کہ حقیقت شے کا علم ہو تب ایمان لائے۔ دیکھیے روح کی حقیقت ہم نہیں جانتے لیکن اس کے آثار کی وجہ سے ہم مانتے ہیں۔ اسی طرح خدا کی ذات وصفات پرہم ایمان رکھتے ہیں۔ لیکن کنہ وحقیقت کا علم نہیں ٹھیک اسی طرح کسب واکتساب کوسمجھ لینا چاہیے۔ اس کے آگے بحث میں خیر نہیں۔ اسی لیے رسول اللہﷺ نے مسئلہ تقدیر میں بحث سےمنع فرمایاہے۔
    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں