مہمان کا فطرانہ بھی ہم ادا کریں

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ ہم اپنا تو فطرانہ اداء کرتے ہیں، لیکن اگر عید سے پہلے کوئی مہمان آجائے تو کیا اس کا بھی فطرانہ ادا کرنا ہوگا؟

976 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! صدقۃ الفطر کے حوالے سے یہ ہے کہ جو گھر کا سربراہ ہو، وہ اپنی طرف سے اورہراس شخص کی طرف سے جس کا نفقہ اورخرچ اس پرفرض ہے یا جن کے اخراجات کی اس نے ذمہ داری لے رکھی ہے، سب کی طرف سے ادا کرے گا۔ بخاری میں حدیث ہے کہ

    حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ السَّكَنِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَهْضَمٍ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ نَافِعٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَلَى الْعَبْدِ وَالْحُرِّ وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى وَالصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ مِنْ الْمُسْلِمِينَ وَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُؤَدَّى قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَى الصَّلَاةِ۔ (بخاری:1503)
    ہم سے یحیٰی بن محمد بن سکن نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہم سے محمد بن جھضم نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا ان سے عمر بن نافع نے ان سے ان کے باپ نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطر کی زکوٰۃ ( صدقہ فطر ) ایک صاع کھجوریا ایک صاع جو فرض قرار دی تھی۔ غلام ، آزاد، مرد، عورت، چھوٹے اور بڑے تمام مسلمانوں پر۔ آپ کا حکم یہ تھا کہ نماز ( عید ) کے لیے جانے سے پہلے یہ صدقہ ادا کردیا جائے۔

    اس حدیث کی رو سے گھر کے سربراہ کو اپنے بیوی، بچوں، غلاموں اور ان بے کس محتاجوں کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرنا پڑے گا، جن کے پاس کوئی مال نہیں ہے، اور جن کی خوراک کا اس نے ذمہ لے رکھا ہے۔ ان کا بھی فطرانہ ادا کرنا اس کے ذمہ ہے۔ اور اسی میں مہمان بھی شامل
    ہیں۔
    وضاحت:
    ایک سوال بعنوان
    مہمان کا فطرانہ بھی ہم ادا کریں؟
    کے جواب میں یہ کہا گیا ہے کہ مہانوں کا بھی فطرانہ دینا چاہیے، لیکن اس میں یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ لازمی وضروری اورواجب کے حکم میں نہیں ہے بلکہ مستحب کے حکم میں ہے۔ کہ اگر کوئی دیتا ہے تو اچھا ہے، لیکن اگر کوئی نہیں دیتا تو اس پر گناہ نہیں ہے۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں