کیا فرض اور واجب میں فرق ہے

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ کیا فرض اور واجب میں فرق ہے؟ اس کی وضاحت فرمائیں

1325 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! سب سے پہلے تو ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ فرض، واجب، سنت، مکروہ، مستحب وغیرہ وغیرہ، یہ سب اصطلاحات بعد کے فقہاء کی ہیں عہد رسالت صلی اللہ علیہ وسلم یا عہد صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں یہ اصطلاحات رائج نہیں تھیں۔ اسی طرح یہ بھی جان لیں کہ قرآن وحدیث میں جو فرض، واجب یا سنت کے الفاظ مستعمل ہوئے ہیں، وہ ان اصطلاحی معنوں میں بالکل نہیں ہیں۔ بلکہ سیاق وسباق سے طے ہوگا کہ نصوص میں یہ کن معانی میں مستعمل ہیں۔ کیونکہ بہت سارے لوگ یہ بات سمجھ نہیں پاتے، جس وجہ سے قرآن وحدیث کی تفسیروتشریح میں غلطی کرجاتے ہیں ۔

    جہاں تک آپ کا یہ سوال ہے کہ کیا فرض اور واجب میں فرق ہے؟ تو آپ جان لیں کہ فرض اور واجب میں فرق کتاب وسنت میں تو کہیں بیان نہیں ہوا، البتہ کچھ فقہا نے اپنی اصطلاح میں فرق کیا ہے، کہ ’’فرض وہ ہوتا ہے جو قطعی الثبوت دلیل سے ثابت ہو اور واجب وہ ہوتا ہے جو ظنی الثبوت دلیل سے ثابت ہو ‘‘۔ مزید اس حوالے سے استاد محترم شیخ کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ نے تفصیل سے کچھ اس طرح لکھا ہے کہ

    ’’احناف نے فرض اور واجب میں تفریق کے لئے جوبنیاد بنائی ہے وہ یہ ہے کہ ’’جو قطعی دلائل سے ثابت ہو وہ فرض ہے اورجوظنی دلائل سے ثابت ہو وہ واجب ہے‘‘۔ پھران کے یہاں قطعی دلائل اورظنی دلائل کی تفریق، نصوص کی دلالت کے اعتبار سے نہیں بلکہ نصوص کے ہم تک پہنچنے کے اعتبارسے ہیں۔ یعنی قرآن یا بعض کے بقول قرآن اورمتواترحدیث سے جولازمی حکم ثابت ہو وہ واجب ہے، کیونکہ قرآن اور متواترحدیث ہم تک پہنچنے کے اعتبارسے قطعی ذرائع سے ثابت ہیں۔ جبکہ آحاد یعنی غیرمتواتر احادیث سے جو لازمی حکم ثابت ہوگا وہ واجب ہوگا، کیونکہ اخبارآحاد یعنی غیرمتواتراحادیث ہم تک پہنچنے کے اعتبارسے قطعی ذرائع سے ثابت نہیں ہیں۔‘‘

    شیخ حفظہ اللہ مزید لکھتے ہیں

    ’’ لیکن اس بنیاد پرمذکورہ تفریق قطعاً غلط ہے کیونکہ نصوص شریعت اگر ثابت ہوجائیں تو ان کے ثبوت کا ذریعہ کوئی بھی ہو، قرآن، حدیث متواتر یا حدیث واحد، سب کو یکساں طورپرقبول کیا جائے گا۔ قرآن، حدیث متواتر، حدیث واحد وغیرہ میں جو فرق ہے وہ من حیث الورود ہے نہ کہ من حیث القبول۔ قبولیت کے اعتبارسے کوئی تفریق نہیں ہے کوئی مسئلہ قرآن سے ثابت ہو یا حدیث متواترسے یا حدیث سے آحاد سے سب یکساں طورپر مقبول ہے۔ لہذا ورود کے اعتبارسے نصوص کے جو درجات ہیں ان کو بیناد بناکر ان سے مستنبط احکام میں تفریق کرنا درست نہیں۔ یعنی اگرکوئی لازمی حکم قرآن کی کسی صریح آیت سے ثابت ہوتو اسے ہم فرض کہیں لیکن اگروہی صریح مسئلہ اسی مفہوم پوری صراحت کے ساتھ کسی حدیث سے ثابت ہوتا تو ہم اسے واجب کہتے ہیں، یہ تفریق قطعاً غلط ہے۔

    الغرض فرض اور واجب کی یہ تفریق احناف کی ہے جو دیگرمحدثین و فقہاء کے خلاف ہے کیونکہ دیگر کے یہاں فرض اورواجب کی اصطلاح سے ایک ہی معنی مراد ہے اوریہی بات راجح ہے۔ لہٰذا ان دونوں اصطلاحات کو ایک ہی معنی میں استعمال کرنا چاہئے۔

    امام فخر الدين الرازي (المتوفى: 606 ) نے کہا:

    وأما الاسم فاعلم أنه لا فرق عندنا بين الواجب والفرض [المحصول للرازي:1/ 97 ]۔
    یعنی ہمارے نزدیک واجب اورفرض میں کوئی فرق نہیں۔

    امام شوکانی نے (المتوفى: 1250) کہا:

    فَالْوَاجِبُ فِي الِاصْطِلَاحِ: مَا يُمْدَحُ فَاعِلُهُ، وَيُذَمُّ تَارِكُهُ، عَلَى بَعْضِ الْوُجُوهِ فَلَا يَرِدُ النَّقْضُ بِالْوَاجِبِ الْمُخَيَّرِ، وَبِالْوَاجِبِ عَلَى الْكِفَايَةِ، فَإِنَّهُ لَا يُذَمُّ فِي الْأَوَّلِ، إِذَا تَرَكَهُ مَعَ الْآخَرِ، وَلَا يُذَمُّ فِي الثَّانِي إِلَّا إِذَا لَمْ يَقُمْ بِهِ غَيْرُهُ. وَيَنْقَسِمُ إِلَى مُعَيَّنٍ وَمُخَيَّرٍ، وَمُضَيَّقٍ، وَمُوَسَّعٍ، وَعَلَى الْأَعْيَانِ، وَعَلَى الْكِفَايَةِ. وَيُرَادِفُهُ الْفَرْضُ عِنْدَ
    الْجُمْهُورِ۔ (إرشاد الفحول إلى تحقيق الحق من علم الأصول:1/ 26)

    یعنی جمہور کے نزدیک واجب اورفرض کے ایک دوسرے کے مترادف ہیں ان میں کوئی فرق نہیں۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں