دعا میں بندوں کا وسیلہ پکڑنے کی شرعی حیثیت

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ کیا ہم کیس اپنے جیسے انسان کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرسکتے ہیں کہ فلاں کے وسیلے سے مجھے معاف کردے، جیسا کہ ایک بہن نے گروپ میں ایسا کیا ہے۔

407 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! اللہ تعالیٰ سے وسیلہ پکڑنے کی کچھ قسمیں ہیں، ان میں کچھ مشروع ہیں تو کچھ ممنوع۔ جن کو ذیل میں بیان کیا جاتا ہے۔

    پہلی قسم
    پہلی قسم یہ ہے کہ کوئی انسان کسی زندہ انسان (یاد رہے زندہ کی بات ہورہی ہے) سے دعا کی درخواست کرے، تو ایسا کرنا جائز ہے۔جیساکہ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بارش کی تاخیر کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کرواتے تھے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے چچا عباس رضی اللہ عنہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دعا کروائی۔اسی طرح کسی مسلمان کا کسی مسلمان بھائی سے دعا کی گزارش کرنا کہ وہ اس کےلیے کسی منفعت یا مصیبت کو دور کرنے کےلیے اللہ سے دعا کردے۔ تو یہ بھی جائز ہے۔

    دوسری قسم:
    کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی االلہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے والوں کی محبت اور اولیاءاللہ کی محبت کو توسل کرتے ہوئے دعا کرے اور کہے کہ اے اللہ میں تجھ سے تیرے نبی اور ان کے فرمان بردار لوگوں سے اپنی محبت اور تیرے اولیاء سے اپنی محبت کے صدقے یہ مانگتا ہوں تو ایسا کرنا بھی جائز ہے، کیونکہ یہ بندے کا اپنے رب کی بارگاہ میں اپنے نیک عمل کو وسیلہ بنانا ہے، (کیونکہ نیک لوگوں سے محبت بھی ایک نیک عمل ہے، اور وہ اپنے اس نیک عمل سے وسیلہ پکڑ رہا ہے)۔ جیساکہ تین غار میں پھنسنے والوں نے اپنے اپنے نیک اعمال کا وسیلہ بنایا تھا۔

    تيسری قسم:
    تیسری قسم یہ ہے کہ کوئی اللہ سے اس کے انبیاء اور اس کے اولیاء کا واسطہ دیتے ہوئے یوں کہے کہ اے اللہ میں تجھ سے تیرے نبی یا فلان ولى کے وسیلہ یا صدقےسے توسل کرتا ہوں، یا فلاں انسان کے صدقے سوال کرتا ہوں، چاہے وہ زند ہ ہوں یا فوت ہوگئے ہوں، تو ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ اگرچہ نیک لوگوں کا واسطہ اللہ کے ہاں عظیم واسطہ ہے۔ لیکن یہ کوئی دعا کی قبولیت کا سبب نہیں ہے۔ اور نہ ہی ایسا وسیلہ ثابت ہے۔ اور اسی لئے تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جب قحط میں مبتلا ہوئے تو برسات کے لئے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے کو چھوڑ کر آپ کے چچا عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلے کو اپنایا اور صحابہ کرام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کو وسیلہ بناتے ہوئے نہیں دیکھا گیا جب کہ وہ بہترین زمانے والے تھے۔ اس لیے اس قسم کا وسیلہ جائز نہیں ہے۔

    چوتهی قسم
    چوتھی قسم یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے رب سے اپنی حاجت طلب کرتے ہوئے اس کے ولی یا نبی کے حق کو توسل كرتے ہوئے یوں کہے کہ اے اللہ میں تجھ سے تیرے فلاں ولی یا تیرے فلاں نبی کے حق کو وسیلہ بناتے ہوئے سوال کرتا ہوں، تو ایسا کرنا بھی ناجائز ہے۔
    نوٹ:
    بعض لوگ سورہ مائدہ کی اس آیت کو بندوں کا وسیلہ پکڑنے کے جواز میں بطور دلیل پیش کرتے ہیں

    يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ۔ (سورة المائدة)
    ’’ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف جانے کےلئے وسیلہ تلاش کرو۔‘‘

    حالانکہ یہاں وسیلے سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ دعا میں کسی کا واسطہ یا وسیلہ ڈالا جائے یا پھر کسی کے واسطے یا وسیلے سے عذاب سے بچ جائے۔ یہاں بھی وسیلے سے مراد نیک اعمال سے قربت حاصل کرنا ہے۔

    باقی بہن کا گروپ میں یہ کہنا کہ اے اللہ پاک مجھے آپ سب نیک بہنوں کے صدقے ہدایت عطا فرما۔ یہ درست نہیں۔ بلکہ بہن آپ تمام بہنوں سے اپنی محبت کے عمل کا وسیلہ پکڑتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرسکتی ہیں۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں