جاں کنی کے عالم میں قرآن پڑھنا
سوال
اسلام علیکم وحمتہ وبرکاتہ
سوال:
اگر کوئی شخص جاں کنی کے عالم میں رہے تو کیا ان کے پاس قرآن مجید کی تلاوت کی جا سکتى ہے؟
Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link and will create a new password via email.
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit.Morbi adipiscing gravdio, sit amet suscipit risus ultrices eu.Fusce viverra neque at purus laoreet consequa.Vivamus vulputate posuere nisl quis consequat.
جواب ( 1 )
جواب:
جاں کنی کے عالم میں علماء نے قرآن کی تلاوت کرنا مستحب قرار دیا ہے ہوسکتا ہے اللہ تعالی اس کے لئے نفع بخش بنائے مگر سورہ یسین کی تعیین کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ وفات پانے والے کے پاس سورہ یسین پڑھنے والی حدیث ضعیف ہے ۔
اقرَأوا علَى مَوتاكُم يس۔( السلسلة الضعيفة:5861)
ترجمہ: تم اپنے میت (جاں کنی کے عالم میں) پہ سورہ یسین پڑھو۔
گوکہ بعض محدثین نے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے مگر جتنے بھی طرق سے یہ روایت آئی ہے سب پہ کلام ہے ۔
قریب المرگ کے سلسلے میں جو چیز ثابت ہے وہ یہ ہے کہ اسے لاالہ الااللہ کی تلقین کی جائے ۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لقنوا موتاکم لا الہ الا اللہ.(صحیح مسلم: 916)
ترجمہ: اپنے قریب الموت کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرو۔
لاالہ الااللہ کی تلقین کی وجہ یہ ہے کہ اسی کلمے پہ آخرت میں نجات کا دارومدار ہے ۔
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من كانَ آخرُ كلامِهِ لا إلَهَ إلَّا اللَّهُ دَخلَ الجنَّةَ(صحیح ابوداؤد: 3116)
ترجمہ : جس کی زبان سے آخری کلمہ لاالہ الااللہ نکلے وہ جنت میں داخل ہوگا۔
ایک روایت میں آخر کلمہ کے بعد “من الدنیا” کا لفظ آیا ہے ۔
من كان آخرَ كلامِه من الدنيا لا إلهَ إلا اللهُ دخل الجنةَ.(شرح رياض الصالحين لابن عثیمین:2/139)
ترجمہ : دنیا میں جس کی زبان سے آخری کلمہ لاالہ الا اللہ نکلا وہ جنت میں داخل ہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا ابوطالب کے لئے وفات کے وقت کلمہ کہلوانے کی بڑی کوشش کی مگر آپ اللہ کی طرف سے منع کردئے گئے ۔
إنك لا تهدي من أحببت ولكن الله يهدي من يشاء وهو أعلم بالمهتدين (القصص: 56)
ترجمہ: آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کرسکتے بلکہ اللہ تعالی ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے ۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاہ ہے ۔
گویا قریب المرگ مسلمان کو ہی لاالہ الا اللہ کی تلقین کی جائے گی جیساکہ اس روایت میں ہے ۔
ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عاد رجلا من الانصار، فقال : یا خال ! قل : لا الہ الا اللہ ، قال :خال أم عمّ؟ قال ؛ بل خال ، قال : وخیرلی أن أقولھا؟ قال: نعم .(مسند احمد : 13862)
ترجمہ : رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری آدمی کی تیمارداری کی ، فرمایا، اے ماموں جان ! لا الہ الا اللہ کہہ دیں ، اس نے کہا ، ماموں یا چچا ؟ ، اس نے کہا ، کیا (لا الہ الا اللہ) کہنا میرے لیے بہتر ہوگا؟ آپ نے فرمایا :ہاں۔
٭ اس روایت کی سند صحیح ہے اور صحیح مسلم کی شرط پہ ہے ۔
چند مسائل:
(1) قریب المرگ کے پاس قرآن پڑھنے کی کوئی صحیح دلیل نہیں ہے بلکہ علماء کا قول ہے اس لئے بہتر یہی ہے کہ اسے لاالہ الااللہ کی تلقین کی جائے ۔
(2) اگر اس کے پاس تلاوت قرآن کرے تو بھی بظاہر کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا۔
(3) وفات پانے کے بعد میت کے پاس یا قبرپہ قرآن پڑھنا بدعت ہے ۔
(4) میت کو قرآن پڑھ کے بخشنا بھی کسی دلیل سے ثابت نہیں ہے اس لئے دین میں نئی ایجاد سے بچا جائے۔
(5) میت کے پاس سورہ یسن پڑھنے والی حدیث اولا ضعیف ہے ، ثانیا اس سے وفات پایا ہوا نہیں بلکہ قریب المرگ مراد ہے ۔ اس لئے مرے ہوئے کے پاس سورہ یسین یا قرآن کی تلاوت کرنا جائز نہیں ہے۔
(6) یہی معاملہ “لقنوا موتاکم” کا ہے کہ اس میں موتا سے مراد قریب الموت ہے ۔
(7) لاالہ الااللہ کی تلقین صرف مسلمان قریب الموت کو کی جائے گی کافر کو نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب