ماں کی نافرمانی اور مرگ الموت کا وقت

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

ایک واقعہ کچھ اس طرح پیش ہوا کہ جس میں بیان تھا کہ حضرت سیدنا عبداللہ بن ابواوفی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ایک آدمی بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور عرض کی یہاں ایک نوجوان کی موت کا وقت قریب ہے اسے کملہ پڑھنے کا کہا گیا ہے لیکن وہ نہیں پڑھ پارہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا وہ اپنی زندگی میں کلمہ نہیں پڑھتا تھا تو لوگوں نے عرض کی کیوں نہیں! ضرور پڑھتا تھا۔ ارشاد فرمایا تو پھر کس چیز نے اسے وقت مرگ کلمہ پڑھنے سے روک دیا؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس نوجوان کے پاس تشریف لے گئے اور ارشاد فرمایا نوجوان لاالہ الا اللہ کہو، اس نے عرض کی میں یہ نہیں کہہ پا رہا۔ ارشاد فرمایا کیوں؟ عرض کی میں ماں کا نافرمان رہا ہوں، آپ نے پوچھا ماں زندہ ہے؟ اس نے عرض کی جی ہاں(چنانچہ اس کی والدہ کو بارگاہ نبوی میں حاضر کیا گیا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا یہ تمہارا بیٹا ہے؟ اس نے عرض کی جی ہاں، ارشاد فرمایا اگر ایک زبردست آگ جلائی جائے اور تم سے کہا جائے کہ اگر تم راضی نہ ہوئیں تو اس نوجوان کو آگ میں ڈال دیں گے تو تم کیا کروگی؟ وہ عرض گزار ہوئی پھر تو میں اسے معاف کردونگی۔ ارشاد فرمایا۔ پھر تم اللہ اور ہمیں گواہ بناکر کہو کہ تم اس سے راضی ہو۔ اس نے عرض کی میں اپنے بیٹے سے راضی ہوں، پھر سرکارنامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نوجوان سے فرمایا۔ لاالہ الا اللہ کہو، اس نے لا الہ الا اللہ کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد ان الفا ظ کے ساتھ بیان کی ’’الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْقَذَهُ مِنَ النَّارِ‘‘ یعنی تمام تعریفیں اس خداکےلیے ہیں جس نے میرے طفیل اسے جہنم سے بچالیا۔
بہن نے اس پر سوال کیا ہے کہ کیا یہ واقعہ درست ہے؟

354 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن یہ واقعہ جھوٹا اور من گھڑت ہے، یہی واقعہ ان الفاظ کے ساتھ کتاب شعب الایمان، باب : حدیث جریج العابد فی فضل حفظ قلب الام، جزء10ص290 پر بیان ہوا ہے۔

    أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، نا أَبُوعُمَرَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ الزَّاهِدُ صَاحِبُ [ص:291] ثَعْلَبٍ بِبَغْدَادَ، نا مُوسَى بْنُ سَهْلٍ الْمُوسِيُّ، نا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أنا فَائِدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ هَهُنَا غُلَامًا قَدِ احْتُضِرَ يُقَالُ لَهُ قُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ فَلَا يَسْتَطِيعَ أَنْ يَقُولَهَا، قَالَ: ” أَلَيْسَ قَدْ كَانَ يَقُولُهَا فِي حَيَاتِهِ؟ ” قَالُوا: بَلَى، قَالَ: ” فَمَا مَنَعَهُ مِنْهَا عِنْدَ مَوْتِهِ؟ ” قَالَ: فَنَهَضَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَهَضْنَا مَعَهُ حَتَّى أَتَى الْغُلَامَ، فَقَالَ: ” يَا غُلَامُ قُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ “، قَالَ: لَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَقُولَهَا، قَالَ: ” وَلِمَ؟ ” قَالَ: لِعُقُوقِ وَالِدَتِي، قَالَ: ” أَحَيَّةٌ هِيَ؟ ” قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: ” أَرْسِلُوا إِلَيْهَا “، فَأَرْسَلُوا إِلَيْهَا فَجَاءَتْ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” ابْنُكِ هُوَ؟ ” قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: ” أَرَأَيْتِ لَوْ أَنَّ نَارًا أُجِّجَتْ فَقِيلَ لَكَ: إِنْ لَمْ تَشْفَعِي لَهُ قَذَفْنَاهُ فِي هَذِهِ النَّارِ “، قَالَتْ: إِذًا كُنْتُ أَشْفَعُ لَهُ، قَالَ: ” فَأَشْهِدِي اللهَ، وَأَشْهِدِينَا مَعَكَ بِأَنَّكَ قَدْ رَضِيتِ “، قَالَتْ: قَدْ رَضِيتُ عَنِ ابْنِي، قَالَ: ” يَا غُلَامُ، قُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ “، فَقَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْقَذَهُ مِنَ النَّارِ ”

    جس کتاب کا صفحہ یہاں پیش ہوا، اس پر واقعہ لکھنے والے نے خیانت سے کام لیا ہے، کیونکہ اسی کے آخر میں یہ الفاظ ہیں

    تَفَرَّدَ بِهِ فَائِدٌ أَبُو الْوَرْقَاءِ، وَلَيْسَ بِالْقَوِيِّ، وَاللهُ أَعْلَمُ
    کہ اس میں فائد ابوالورقاء نامی راوی ہے، جو احادیث بیان کرنے میں قوی نہیں ہے۔

    اور اس واقعہ کو امام االبانی رحمہ اللہ نے ’’السلسلة الضعيفة:3183‘‘ میں بیان کرکے اس پر موضوع کا حکم لگایا ہے۔اور ’’حدیث موضوع‘‘ اس حدیث کو کہتے ہیں جو بالکل جھوٹی ہو اور اسے ازراہ کذب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا گیا ہو۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں