محبت کی شادی جائز یا ناجائز

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ محبت کی شادی جائز ہے یا نہ جائز۔

896 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن ایک سوال ’’کیا اسلام میں محبت کی شادی زيادہ کامیاب ہے یا والدین کا اختیار کردہ رشتہ ؟ ‘‘ اسلام QA جو کہ فتویٰ کی سائٹ ہے، اور الشیخ محمد صالح المنجد کی زیرنگرانی چل رہی ہے۔ ٹیم سے ہوا، تو اس جواب کا خلاصہ اور مزید وضاحت کچھ یوں ہے۔

    محبت کی شادی مختلف ہے، اگرتو طرفین کی محبت میں اللہ تعالی کی شرعی حدود نہیں توڑی گئيں اور محبت کرنے والوں نے کسی معصیت کا ارتکاب نہیں کیا تو امید کی جا سکتی ہے کہ ایسی محبت سے انجام پانے والی شادی زيادہ کامیاب ہوگي، کیونکہ یہ دونوں کی ایک دوسرے میں رغبت کی وجہ سے انجام پائی ہے۔ جب کسی مرد کا دل کسی لڑکی سے معلق ہو جس کا اس کا نکاح کرنا جائز ہے یا کسی لڑکی نے کسی لڑکے کو پسند کرلیا ہو تو اس کا حل شادی کے علاوہ کچھ نہيں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

    دو محبت کرنے والوں کے لیے ہم نکاح کی مثل کچھ نہیں دیکھتے ۔( ابن ماجہ: 1847)

    سنن ابن ماجہ کے حاشیہ میں سندھی رحمہ اللہ تعالی کا کہتے ہیں :

    نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ’’دو محبت کرنے والوں کے لیے ہم نکاح کی مثل کچھ نہیں دیکھتے ‘‘ یہاں پر لفظ ’’ متحابین ‘‘ تثنیہ اورجمع دونوں کا احتمال رکھتا ہے ، اورمعنیٰ یہ ہوگا : اگرمحبت دو کے مابین ہو تو نکاح جیسے تعلق کے علاوہ ان کے مابین کوئی اورتعلق اوردائمی قرب نہیں ہوسکتا، اس لیے اگراس محبت کے ساتھ ان کے مابین نکاح ہو تو یہ محبت ہر دن قوی اور زيادہ ہوگی ۔ انتھی ۔ اور اگر محبت کی شادی ایسی محبت کے نتیجہ میں انجام پائی ہو جو غیرشرعی تعلقات کی بنا پر ہو مثلاً اس میں لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے سے ملاقاتیں کریں ایک دوسرے سے خلوت کرتے رہیں اوربوس وکنار کریں اوراس طرح کے دوسرے حرام کام کے مرتکب ہوں ، تویہ اس کا انجام برا ہی ہوگا اور یہ شادی زيادہ دیر نہیں چل پائے گی۔ کیونکہ ایسی محبت کرنے والوں نے شرعی مخالفت کا ارتکاب کرتے ہوئے اپنی زندگی کی بنیاد ہی اس مخالفت پر رکھی ہے جس کا ان کی ازدواجی زندگی پر اثر ہوگا اور اللہ تعالی کی طرف سے برکت اورتوفیق نہیں ہوگی ، کیونکہ معاصی کی وجہ سے برکت جاتی رہتی ہے ۔

    اگرچہ شیطان نے بہت سے لوگوں کو یہ سبز باغ دکھا رکھے ہیں کہ اس طرح کی محبت جس میں شرعی مخالفات پائی جائے، کرنے سے شادی زيادہ کامیاب اور دیرپا ثابت ہوتی ہے۔ پھر یہ بھی کہ دونوں کے مابین شادی سے قبل جو حرام تعلقات قائم تھے وہ ایک دوسرے کو شک اورشبہ میں ڈالیں گے، توخاوند یہ سوچے گا کہ ہوسکتا ہے جس طرح اس نے میرے ساتھ تعلقات قائم کیے تھے کسی اورسے بھی تعلقات رکھتی ہو کیونکہ ایسا اس کے ساتھ ہوچکا ہے۔ اوراسی طرح بیوی بھی یہ سوچے اور شک کرے گی کہ جس طرح میرے ساتھ اس کے تعلقات تھے کسی اورکسی لڑکی کے ساتھ بھی ہو سکتے ہیں اور ایسا اس کے ساتھ ہوچکا ہے۔ تو اس طرح خاوند اور بیوی دونوں ہی شک وشبہ اور سوء ظن میں زندگی بسر کریں گے جس کی بنا پر جلد یا دیر سے ان کے ازدواجی تعلقات کشیدہ ہو کر رہیں گے۔
    اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خاوند اپنی بیوی پریہ عیب لگائے اور اسے عار دلائے اوراس پر طعن کرے کہ شادی سے قبل اس نے میرے ساتھ تعلقات قائم کیے اور اس پر راضی رہی جو اس پر طعن وتشنیع اورعار کا باعث ہو گا اوراس وجہ سے ان کے مابین حسن معاشرت کی بجائے سوء معاشرت پیدا ہوگی۔ اس لیے جو بھی شادی غیر شرعی تعلقات کی بنا پر انجام پائے گي وہ غالباً اور زيادہ دیر کامیاب نہیں رہے گی اور اس میں استقرار نہیں ہوسکتا۔ اور والدین کا اختیار کردہ رشتہ نہ تو سارے کا سارا بہتر ہے اور نہ ہی مکمل طور پربرا ہے ، لیکن اگر گھر والے رشتہ اختیار کرتے ہوئے اچھے اور بہتر انداز کا مظاہرہ کریں اور عورت بھی دین اور خوبصورتی کی مالک ہو اور خاوند کی رضامندی سے یہ رشتہ طے ہو کہ وہ اس لڑکی سے رشتہ کرنا چاہے تو پھر یہ امید ہے کہ یہ شادی کامیاب اور دیرپا ہوگی ۔

    اور اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکے کو یہ اجازت دی اور وصیت کی ہے کہ اپنی ہونے والی منگیتر کو دیکھے ۔

    اور اگر گھروالوں نے رشتہ اختیار کرتے وقت غلطی کی اور صحیح رشتہ اختیار نہ کیا یا پھر رشتہ اختیار کرنے میں تو اچھا کام کیا لیکن لڑکا/لڑکی اس پر رضامند نہیں تو یہ شادی بھی غالب طور پر ناکام رہے گی اوراس میں استقرار نہیں ہوگا، کیونکہ جس کی بنیاد ہی مرغوب نہیں یعنی وہ شروع سے ہی اس میں رغبت نہیں رکھتے تو وہ چيز غالباً دیرپا ثابت نہیں گی۔

    نوٹ:
    باقی آج کل والی لو میرج کا تو اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ کیونکہ اس کی بنیاد دو قبیح کاموں سے سٹارٹ ہوتی ہے۔

    نمبر1
    لومیرج کا سب سے بڑا محرک عورت کی عریانیت پسندی ہے اور اظہارحسن کی آزادی ہے ، وہ سراپا معطرہوگرسیروتفریح کے لئے نکلتی ہے اورکسی کے ’’لو‘‘ کا نشانہ بنتی ہے، اس سلسلے میں معلم اخلاق صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان یہ ہے

    عَنْ الْأَشْعَرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَيُّمَا امْرَأَةٍ اسْتَعْطَرَتْ فَمَرَّتْ عَلَى قَوْمٍ لِيَجِدُوا مِنْ رِيحِهَا فَهِيَ زَانِيَةٌ»۔(سنن النسائی 8/ 153 رقم 5126)
    الاشعری سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو خاتون عطر (یا خوشبو) لگائے اور پھر وہ لوگوں کے پاس جائے اس لیے کہ وہ اس کی خوشبو سونگھیں تو وہ زانیہ ہے۔

    نمبر2
    جب بات میرج تک پہنچتی ہے تو لڑکی اپنے فیصلہ کوحرف آخرسمجھتی ہے اگراس کا ولی مداخلت کرے توبغاوت پراترجاتی ہے، اس سلسلے میں معلم اخلاق صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان یہ ہے

    عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ، وَلَا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ نَفْسَهَا، فَإِنَّ الزَّانِيَةَ هِيَ الَّتِي تُزَوِّجُ نَفْسَهَا»۔(سنن ابن ماجه 1/ 606 رقم 1882)
    صحابی رسول ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! عورت دوسری عورت کا نکاح نہ کرے اور نہ اپنا نکاح خود کرے اس لئے کہ زنا کار عورت ہی اپنا نکاح خود کرتی ہے۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں