اولاد کے حصول کے لیے وظیفہ

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ میری شادی کو 6 سال ہوگئے ہیں پر ابھی تک اولاد کی نعمت سے محروم ہوں اور میرے خاوند کی رپورٹس بالکل درست ہیں۔ ڈاکٹر نے جواب دے دیا ہے پر میں ڈاکٹر پر اعتماد نہیں کرتی مجھے کوئی وظیفہ بتا دیں۔

1398 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! جس کو اولاد نہ ہورہی ہو تو اس کےلیے کچھ حضرات کی زبان وقلم سے کچھ وظیفے جاری ہوئے ہیں، مثال کے طور پر جن میں سے ایک وظیفہ کچھ اس طرح بھی کہ جن کے ہاں اولاد نہ ہورہی ہو تو وہ دونوں 21 دن روزے رکھیں، اور اللہ تعالی کا اسم مبارک “المصوّر”(یعنی چہرے کی تخلیق کرنے والا) سات بار پڑھ کے ایک کپ پانی پر پھونک ماریں، اور پھر اسی پانی سے روزہ افطار کریں، اللہ کے حکم سے 21 دن پورے ہونے کے بعد انہیں اللہ تعالی اولاد سے نوازے گا”۔ اس طرح کے اور وظائف بھی تو عرض ہے کہ اس طرح کی کوئی چیز کتاب وسنت سے ثابت نہیں ہے۔ لہٰذا ایسے اعمال اور ایسے وظائف سے اجتناب کرنا چاہیے۔

    جہاں تک اولاد کے حوالے سے بات ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرما ن ہے۔

    لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ ۔ أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيمًا إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ ۔(الشورى:49، 50)
    آسمان وزمین کی بادشاہی اللہ کےلیے ہی ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے، اور جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے، اور جسے چاہتا ہے بیٹے عطا کرتا ہے۔ یا انہیں بیٹے بیٹیاں ملا کر عطا کرتا ہے، اور جسے چاہتا ہے بانجھ بنا دیتا ہے، بیشک وہ جاننے والا اور قدرت رکھنے والا ہے۔

    اس لئے اولاد کا مکمل طور پر اختیار اللہ کے پاس ہے۔

    لہذا آپ دونوں میاں بیوی کو چاہیے کہ اللہ عزوجل کے سامنے گڑگڑا کر نیک اولاد کا سوال کریں، اور پوری گریہ زاری کےساتھ ذکر ودعا میں مشغول رہیں۔ اسی طرح اگر میاں بیوی میں سے کسی ایک میں کوئی بیماری ہے، جس کی وجہ سے اس محرومی کا سامنا ہے تو جائز طریقہ کار کے مطابق ادویات کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔

    اولاد کی نعمت سے محرومی کا کچھ بھی سبب ہو، ہر حالت میں اللہ تعالی پر کامل بھروسہ ہونا چاہیے، اللہ تعالی پر توکل ہو، اور اللہ کے فیصلوں پر مکمل صبر کریں، اور یہ یقین رکھیں کہ اللہ تعالی نے ان کےلیے اس نعمت سے محرومی پر صبر کرنے کی وجہ سے خوب اجر عظیم رکھا ہوا ہے۔ اور پھر حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندے مؤمن کےلیے وہی پسند کرتا ہے جو اس کےلیے بہتر ہوتا ہے جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

    مؤمن کا معاملہ تعجب خیز ہے! کہ صرف مؤمن کا ہر معاملہ خیر سے بھر پور ہوتا ہے، اگر اسے خوشی ملے تو شکر کرتا ہے، جو اس کےلیے بہتری کا باعث ہے، اور اگر اسے تکلیف پہنچے تو صبر کرتا ہے، اور یہ بھی اس کےلیے خیر کا باعث ہے۔ ( مسلم: 2999)

    نوٹ:
    یہ بات درست ہے کہ اللہ تعالی کے اسمائے حسنیٰ کے ذریعے بانجھ پن سمیت دیگر بیماریوں سے شفا یابی کی دعا مانگنا اللہ تعالی کے اس فرمان میں شامل ہے:

    وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا ۔(الأعراف : 180)
    اللہ تعالی کے اچھے اچھے نام ہیں، اسے انہی کے واسطے سے پکارو۔

    اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی لوگوں کو دم کرتے ہوئے اسمائے حسنیٰ کا واسطہ دیا، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے:

    أَذْهِبِ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ، اِشْفِ أَنْتَ الشَّافِيْ لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ ۔(بخاری:5743)
    لوگوں کو پالنے والے! تکلیف دور کر دے، تو شفا دے، تو ہی شفا دینے والا ہے، تیری شفا کے علاوہ کوئی شفا نہیں ہے۔

    لیکن اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے کسی اسماء کو کسی خاص عمل کے ساتھ مختص کردینا جیسا کہ اولاد نہ ہونے کا وظیفہ بتانے والے لوگ المصور کو اس عمل کے ساتھ خاص کردیتے ہیں تو یہ کسی دلیل سے ثابت نہیں۔ اس لئے کسی اسم الہی کو کسی مخصوص کام کےلیے متعین کرنا غیر شرعی عمل ہوگا۔

    لہٰذا آپ دونوں کو چاہیے کہ اگر تو طبی حوالے سے نقص ہے تو کسی ماہر حکیم وڈاکٹر سے علاج کروائیں، ورنہ رب تعالیٰ سے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ضرور اولاد جیسی نعمت سے نوازے گا۔ ان شاءاللہ

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں