زندگی میں جائداد کی تقسیم کا مسئلہ

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں ہی اپنی جائیداد اپنی اولاد میں برابر برابر تقسیم کردے تو کیا وہ ایسا کرسکتا ہے؟ یعنی بیٹے بیٹیوں کو اپنی ساری جائیداد برابر برابر دے دے۔ دلائل سے وضاحت فرمائیں

397 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    جی بہن کوئی بھی شخص اپنی دولت اپنی زندگی میں اولاد کے مابین برابر برابر تقسیم کرسکتا ہے۔ اس کی دلیل یہ حدیث مبارکہ ہے۔

    أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ عَنْ الشَّعْبِيِّ قَالَ حَدَّثَنِي النُّعْمَانُ بْنُ بَشِيرٍ الْأَنْصَارِيُّ أَنَّ أُمَّهُ ابْنَةَ رَوَاحَةَ سَأَلَتْ أَبَاهُ بَعْضَ الْمَوْهِبَةِ مِنْ مَالِهِ لِابْنِهَا فَالْتَوَى بِهَا سَنَةً ثُمَّ بَدَا لَهُ فَوَهَبَهَا لَهُ فَقَالَتْ لَا أَرْضَى حَتَّى تُشْهِدَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمَّ هَذَا ابْنَةَ رَوَاحَةَ قَاتَلَتْنِي عَلَى الَّذِي وَهَبْتُ لَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا بَشِيرُ أَلَكَ وَلَدٌ سِوَى هَذَا قَالَ نَعَمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفَكُلُّهُمْ وَهَبْتَ لَهُمْ مِثْلَ الَّذِي وَهَبْتَ لِابْنِكَ هَذَا قَالَ لَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا تُشْهِدْنِي إِذًا فَإِنِّي لَا أَشْهَدُ عَلَى جَوْرٍ۔ (نسائی:3711)
    حضرت نعمان بن بشیر انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان کی والدہ محترمہ بنت رواحہ نے ان کے والد محترم سے مطالبہ کیا کہ میرے بیٹے کو اپنے مال میں سے کوئی عطیہ دیں۔ وہ ایک سال تک ٹال مٹول کرتے رہے۔ آخر ان کے جی میں آیا تو انہوں نے اسے (نعمان کو) عطیہ دے دیا۔ تو اس کی والدہ کہنے لگی: میں اس وقت تک راضی نہیں جب تک تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ نہیں بناتے۔ وہ آپ کے پاس جا کر کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! اس کی ماں بنت رواحہ (ایک سال سے) مجھ سے اس عطیے کی خاطر جھگڑتی رہی ہے جو میں نے اس (نعمان) کو دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے بشیر! کیا اس کے علاوہ بھی تیرے بچے ہیں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے ان میں سے ہر ایک کو اس جیسا تحفہ دیا ہے جو تو نے اپنے اس بیٹے کو دیا ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر مجھے (اس پر) گواہ نہ بناؤ کیونکہ میں ظلم پر گواہ نہیں بن سکتا۔

    لیکن اس کو عطیہ یا ہبہ کا نام دیا جاتا ہے۔ اور یہ مال کی تقسیم اس لیے کرسکتا ہے کیونکہ انسان اپنی زندگی میں اپنے مال میں تصرف کا حق رکھتا ہے، لہٰذا وہ کسی کو بھی اپنے مال سے کچھ حصہ ہبہ کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ لیکن یہ ہبہ/عطیہ اولاد کو کرنا ہو تو اس میں دو شرطیں ہیں

    1۔ پہلی شرط یہ ہے کہ اولاد کے مابین عدل وانصاف قائم رکھے، چاہے وہ بیٹے ہوں یا بیٹیاں
    2۔ دوسری شرط یہ ہے کہ اس ہبہ یا عطیہ سے كسى ايک وراث كو نقصان دينے کی نیت نہ ہو۔

    کیونکہ اپنے ورثاء میں کسی کو نقصان دینا یا اس طرح کی نیت رکھنا یہ درست نہیں۔ اس ليے كہ اللہ سبحانہ وتعالىٰ نے وراثت كى تقسيم خود فرمائى ہے، اور ورثاء كے حصے خود مقرر كيے ہيں، اور جو شخص بھى اس سے باہر جائےگا اس كے ليے اللہ تعالى نے بہت سخت وعيد بھی بيان فرمائى ہے، جیسا کہ ارشادی باری تعالیٰ ہے

    تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۚ وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ۔ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌ ۔(سورۃ النساء: 13، 14)
    يہ اللہ تعالى كى حدود ہيں، اور جو كوئى اللہ تعالى اور اس كے رسول كى اطاعت وفرمانبردارى كرے گا وہ ايسى جنتوں اور باغات ميں داخل ہو گا جس كے نيچے سے نہريں بہتى ہيں، اس ميں ہميشہ رہے گا، اور يہ بہت بڑى كاميابى ہے، اور جو كوئى بھى اللہ تعالى اور اس كے رسول كى نافرمانى كرے گا اور اس كى حدود سے تجاوز كرے گا، وہ جہنم كى آگ ميں داخل ہوگا اور اس ميں ہميشہ كے ليے رہے گا، اور اس كے ليے اہانت آميز عذاب ہے۔

    لیکن ایسے شخص کےلیے بہتری اور افضل یہی ہے کہ وہ اپنے مال کے ساتھ ايسا نہ كرے، بلكہ اپنا مال اپنے پاس ہى رہنے دے، اور جب وہ فوت ہو جائے تو اس كى وفات كے وقت موجود ورثاء ميں اس كا تركہ شرعى تقسيم كے مطابق تقسيم كر ديا جائےگا، کیونکہ انسان كو اس كا كوئى علم نہيں كہ پہلے كسے موت آنى ہے؟ حتى كہ وہ اپنا مال اپنے ورثاء ميں تقسيم كرتا پھرے، اور ہو سكتا ہے اس كى عمر لمبى ہو جائے اور اسے اس مال كى ضرورت ہو۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں