قرآن وسنت کی روشنی میں خاوند اور بیوی کے حقوق

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ قرآن وسنت کی روشنی میں خاوند کے بیوی پر اور بیوی کے خاوند پر کیا حقوق ہیں۔ وضاحت فرمائیں

295 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! اسلام نے خاوند پر بیوی کے اور بیوی پر خاوند کے کچھ حقوق مقرر کیے ہيں، اورکچھ حقوق توخاوند اوربیوی دونوں پر مشترکہ طور پر واجب ہیں۔ ذیل میں خاوند اوربیوی کے ایک دوسرے پر کتاب وسنت کی روشنی میں کیا حقوق ہیں؟ ان کا ذکر پیش ہے۔

    اول :
    صرف بیوی کے خاص حقوق:
    بیوی کے اپنے خاوند پر کچھ تومالی حقوق ہیں جن میں مہر، نفقہ ، اوررہائش شامل ہے۔ اورکچھ حقوق غیر مالی ہیں جن میں بیویوں کے درمیان تقسیم میں عدل انصاف کرنا، اچھے اوراحسن انداز میں بود وباش اورمعاشرت کرنا، بیوی کوتکلیف نہ دینا۔

    1۔ مالی حقوق
    ٭ مہر
    مہر وہ مال ہے جو بیوی کااپنے خاوند پر حق ہے جوعقد یا پھر دخول کی وجہ سے ثابت ہوتا ہے، اوریہ بیوی کا خاوند پر اللہ تعالی کی طرف سے واجب کردہ حق ہے ۔
    ٭ نان ونفقہ
    علماء اسلام کا اس پر اجماع ہے کہ بیویوں کا خاوند پر نان ونفقہ واجب ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اگرعورت اپنا آپ خاوند کے سپرد کردے توپھرنفقہ واجب ہوگا، لیکن اگر بیوی اپنے خاوند کونفع حاصل کرنے سے منع کردیتی ہے یا پھر اس کی نافرمانی کرتی ہے تواسے نان ونفقہ کا حقدار نہیں سمجھا جائے گا۔
    ٭ رہائش
    یہ بھی بیوی کے حقوق میں سے ہے کہ خاوند اس کے لیے اپنی وسعت اورطاقت کے مطابق رہائش تیار کرے۔

    2۔ غیرمالی حقوق
    ٭ بیویوں کے درمیان عدل وانصاف
    بیوی کا اپنے خاوند پر حق ہے کہ اگر اس کی اور بھی بیویاں ہوں تووہ ان کے درمیان رات گزارنے، نان ونفقہ اورسکن وغیرہ میں عدل وانصاف کرے ۔
    ٭حسن معاشرت
    خاوند پر واجب ہے کہ وہ اپنی بیوی سے اچھے اخلاق اورنرمی کا برتاؤ کرے، اوراپنی وسعت کے مطابق اسے وہ اشیاء پیش کرے جواس کےلیے محبت والفت کا با‏عث ہوں۔
    ٭ بیوی کوتکلیف سے دوچارنہ کرنا
    یہ اسلامی اصول بھی ہے، اورجب کسی اجنبی اوردوسرے تیسرے شخص کونقصان اورتکلیف دینا حرام ہے توپھر بیوی کوتکلیف اورنقصان دینا تو بالاولیٰ حرام ہوگا ۔

    دوم :
    بیوی پر خاوند کے حقوق
    بیوی پر خاوند کے حقوق بہت ہی عظیم حیثیت رکھتے ہیں بلکہ خاوند کے حقوق توبیوی کے حقوق سے بھی زيادہ عظیم ہیں اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے :

    وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ۔(البقرۃ :228)
    اوران عورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہيں جیسے ان مردوں کے ہیں اچھائی کے ساتھ ، ہاں مردوں کوان عورتوں پر درجہ اورفضیلت حاصل ہے ۔

    اوران حقوق میں سے کچھ یہ ہیں :

    ٭ اطاعت کا وجوب
    اللہ تعالی نے مرد کوعورت پرحاکم مقررکیا ہے جواس کا خیال رکھے گا اوراس کی راہنمائی اوراسے حکم کرے گا جس طرح کہ حکمران اپنی رعایا پر کرتے ہیں، اس لیے کہ اللہ تعالی نے مرد کوکچھ جسمانی اورعقلی خصائص سے نوازا ہے، اوراس پر کچھ مالی امور بھی واجب کیے ہیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالی کافرمان ہے

    الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ۔(النساء :34)
    مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالی نے ایک کودوسرے پر فضيلت دی ہے اوراس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں ۔

    ٭ خاوند کے لیے استمتاع ممکن بنانا
    خاوند کا بیوی پر حق ہے کہ وہ بیوی سے نفع حاصل کرے، جب عورت شادی کرلے اوروہ جماع کی اہل بھی ہو توعورت پر واجب ہے کہ وہ اپنے آپ کوعقد نکاح کی بنا پر خاوند کے طلب کرنے پر خاوند کے سپرد کردے۔ اورجب بیوی جماع کرنے میں خاوند کی بات تسلیم نہ کرے تویہ ممنوع ہے، او رکبیرہ گناہ ہے۔ لیکن اگر کوئی شرعی عذر ہوتو ایسا کرسکتی ہے مثلاً حیض، یا فرضی روزہ، اور بیماری وغیرہ ہو ۔

    ٭ خاوند جسے ناپسند کرتا ہواسے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دینا
    خاوند کا بیوی پر یہ بھی حق ہے کہ وہ اس کے گھر میں اسے داخل نہ ہونے دے جسے اس کا خاوند ناپسند کرتا ہے ۔

    ٭ خاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلنا
    خاوند کا بیوی پر یہ حق ہے کہ وہ گھر سے خاوند کی اجازت کے بغیر نہ نکلے ۔

    ٭ تادیب
    خاوند کوچاہیے کہ وہ بیوی کی نافرمانی کے وقت اسے اچھے اوراحسن انداز میں ادب سکھائے نہ کہ کسی برائی کے ساتھ، اس لیے کہ اللہ تعالی نے عورتوں کواطاعت نہ کرنے کی صورت میں علیحدگی اورہلکی سی مارکی سزا دے کرادب سکھانے کا حکم دیا ہے ۔

    ٭ بیوی کا اپنے خاوند کی خدمت کرنا

    ٭ عورت کا اپنا آپ خاوند کے سپرد کرنا
    جب عقدنکاح مکمل اورصحیح شروط کے ساتھ پورا اورصحیح ہو توعورت پر واجب ہے کہ وہ اپنے آپ کوخاوند کے سپرد کردے اوراسے استمتاع ونفع اٹھانے دے، اس لیے کہ عقد نکاح کی وجہ سے عوض خاوند کے سپرد ہونا چاہیے، جو کہ استمتاع اورنفع کی صورت میں ہے، اوراسی طرح عورت بھی عوض کی مستحق ہے جو کہ مہر کی صورت میں دیا جاتا ہے ۔

    ٭ بیوی کی اپنے خاوند سے حسن معاشرت
    بیوی کو چاہے کہ وہ اپنے خاوند کے ساتھ اچھے اخلاق اور اچھے رویہ کے ساتھ رہے، اور خاوند کو کسی بھی طرح کی تکلیف نہ دے۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں