استسقاء بیماری میں اونٹنی کا دودھ اور پیشاب ملاکر پینا

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ استسقاء بیماری (پیٹ یا پھیپھڑوں میں پانی بھر جانے والی بیماری) میں کیا اونٹنی کا دودھ اور پیشاب ملا کر پینے والی بات درست ہے؟ اور کیا صرف اونٹنی کا ہی پیشاب ملایا جاسکتا ہے؟ یا اونٹ کا بھی ملا کر پی سکتے ہیں؟

823 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:
    بہن بخاری، کتاب الطب حدیث نمبر5686 کے تحت کچھ اس طرح حدیث ہے

    عن أنس أن ناساًاجتووا فی المدینۃ فأمرھم النبی أن یلحقوا براعیہ یعنی الابلفیشربومن ألبانھا وأبوالھا فلحقوا براعیہ فشربوامن ألبانھا وأبوالھاحتٰی صلحت أبدانھم۔
    ’’ قبیلہ عکل اور عرینہ کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مدینے کی آب وہواموافق نہ آنے پر وہ لوگ بیمار ہوگئے (ان کو استسقاء یعنی پیٹ میں یا پھیپھڑوں میں پانی بھرنے والی بیماری ہوگئی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے اونٹنی کے دودھ اور پیشاب کو ملاکر پینے کی دوا تجویز فرمائی ۔ یہاں تک کہ اسے پی کروہ لوگ تندرست ہوگئے ‘‘۔

    اس حدیث میں اونٹنی کے پیشاب اور اس کے دودھ کا ذکر ہے۔ اسی طرح حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی اسی حدیث کے حوالے سے اپنی کتاب زادالمعاد میں یہی لکھا ہے کہ اونٹنی کے تازہ دودھ اور پیشاب کو ملاکر پینا بہت سے امراض کے لئے شافی دوا ہے۔ باقی اس طریقہ علاج کے حوالے سے بہت سارے عقلی سوالات وتوجیہات بیان کرکے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ثابت شدہ بیماری کے علاج کی تجویز پرسے انکار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کے پاس سوائے اٹکل پچھو کے اور کچھ نہیں۔ اور آج بھی سعودی عرب میں دیکھاجاتا ہے کہ لوگ اونٹنی کے دودھ میں اس کے پیشاب کو ملا کر پیتے ہیں، اور یہ بات بھی سننے/پڑھنے میں آئی ہے کہ برطانیہ والوں نے بھی اس پر تحقیق کی ہے اور اس کے پیشاب اور دودھ سے فائدہ حاصل کرنے کےلیے انہوں نے اونٹ پالنا شروع کردیے ہیں۔ خیر کوئی تحقیق ہو یا نہ ہو، لیکن چونکہ اونٹنی کے پیشاب کے فائدہ کے سلسلے میں شرعی نص موجود ہے، اس لیے ہمارا اس پر ایمان بھی ہے اور یقین بھی۔ اسے بطور علاج استعمال کیا جاسکتا ہے، اور یقیناً فائدہ بھی ہوتا ہے۔

    نوٹ:
    اس حوالے سے ایک بات یاد رہے کہ عکلی اور عرینی لوگوں کے اس واقعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ان کی بیماری کا جو علاج بتایا اس کو کسی کے لیے لازم قرار نہیں دیا اور نہ ہی اس پر عمل نہ کرنے والے کے لیے کوئی وعید سنائی ، اور نہ ہی کسی اور کو یہ علاج بتایا، اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ معاملہ مریض کی اپنی مرضی پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ بوقت ضرورت اس علاج کو استعمال کرے یا نہ کرے ۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں