بیوی کا اپنے نام کے ساتھ خاوند کا نام لگانا

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ ہمارے معاشرہ میں اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ شادی کے بعد خواتین اپنے نام کے ساتھ شوہر کانام لگا لیتی ہیں۔ کچھ اہل علم اسے غلط قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ مغربی روایت ہے دین اسلام میں اس کا ثبوت نہیں ملتا۔ اور یہ کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے اپنے باپ کے سوا کسی کی طرف نسبت کرنے سے منع کیا ہے۔ جبکہ کچھ اسے صحیح قرار دیتے ہیں۔ ان دو متضاد نظریات میں سے صحیح کونسا ہے؟

529 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:
    بہن حدیث میں جس کام سے منع کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے اصل والد کی جگہ کسی دوسرے کو اپنا باپ ظاہر کرے۔ سیدنا واثلہ بن الاَسْقَع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

    إِنَّ مِنْ أَعْظَمِ الفِرَى أَنْ يَدَّعِيَ الرَّجُلُ إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ ۔(صحیح بخاری:3509)
    بڑے بڑے جھوٹوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کوئی بھی شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی اور (کا بیٹا ہونے) کا دعوى کرے۔

    اسی طرح سیدنا سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

    مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ، وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ غَيْرُ أَبِيهِ، فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ۔( صحیح البخاری:6766)
    جس نے اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنے نسب کا دعوى کیا، حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا باپ نہیں ہے‘ تو اس پر جنت حرام ہے۔

    اسی بات سے قرآن مجید میں اللہ تعالى نے بھی بایں طور منع فرمایا ہے:

    ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ ۔(الأحزاب : 5)
    ان (منہ بولے بیٹوں ) کو ان کے (اصل) باپوں کے نام سے پکارو، یہی اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف والی بات ہے۔ اگر تمہیں ان کے آباء کا علم نہیں ہے تو وہ تمہارے دینی بھائی اور دوست(یا غلام) ہیں۔

    البتہ اپنے نام کے ساتھ والد کے سوا کسی کا نام لگانا یا اس کی طرف نسبت کرنا اس انداز سے ہو جس سے ولدیت تبدیل نہ ہو، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ خود رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے اپنی نسبت اپنے داد کی طرف کرتے ہوئے فرمایا:

    أَنَا النَّبِيُّ لاَ كَذِبْ، أَنَا ابْنُ عَبْدِ المُطَّلِبْ۔ (صحیح البخاری: 2864)
    میں نبی ہوں، اس میں کوئی جھوٹ نہیں، میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں

    اسی طرح سیدنا مقداد بن الاسود رضی اللہ عنہ الاسود بن عبد یغوث الزہری کے زیر پرورش تھے، جس بناء پر وہ مقداد بن الاسود مشہور ہوگئے حالانکہ ان کے والد کا نام عمرو بن ثعلبہ بن مالک البہرانی الکندی تھا۔ چونکہ ان کی ولدیت معروف تھی کہ یہ کس کے بیٹے ہیں، سو اسلام نے مقداد بن الاسود کہنے یا کہلانے پر کوئی نکیر نہیں کی۔ یاد رہے کہ یہ بدری صحابی ہیں، اور چھٹے مسلمان ہیں۔ ان کی وفات مدینہ سے قریب جرف نامی جگہ پر 33 ہجری کو ہوئی۔

    اسی طرح اسلام میں خواتین کی نسبت خاوند کی طرف کرنا بھی ممنوع نہیں ہے جیسا کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا جب زکوۃ کے بارہ میں مسئلہ پوچھنے کے لیے آئیں تو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ زینب مسئلہ پوچھنے کے لیے آئی ہے اور وہ اندر آنے کی اجازت چاہتی ہے۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے استفسار فرمایا کہ کونسی زینب ہے؟ تو جواب دیا گیا

    امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ ۔(صحیح البخاری: 1462)
    ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی ہیں۔

    یہاں بھی زینب رضی اللہ عنہا کی نسبت ان کے خاوند عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف کی گئی۔ اس طرح اور بھی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ عورت کی نسبت اس کے خاوند کی طرف دور نبوی میں بھی کی جاتی تھی ۔ بالخصوص رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کا تذکرہ ہوتا تو ان کے نام کے ساتھ والد کا نام ذکر کرنے کی بجائے زوجہ رسول کہہ کر تذکرہ کیا جاتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خاوند کانام اپنے نام کے ساتھ لگانا کوئی عیب نہیں، اصل عیب اور ممنوع اور حرام کام اپنے والد کے سوا کسی اور کو اپنا باپ قرار دے لینا ہے۔

    اور پھر ہمارے معاشرہ میں عورتوں کے نام عموماً باپ کے نام سے خالی ہوتے ہیں مثلاً مریم بی بی، ثمینہ کوثر، زبیدہ خاتون وغیرہ اور شادی کے بعد اپنے نام کا دوسرا حصہ ختم کرکے وہ اس کی جگہ خاوند کانام لگا لیتی ہیں جیسے مریم رشید، ثمینہ طالب، زبیدہ ارشد وغیرہ۔ تو اس سے کسی قسم کا اشتباہ پیدا ہی نہیں ہوتا۔ بلکہ عورت کو جاننے والے سبھی جانتے ہیں کہ اس کے نام کا دوسرا حصہ اس کے خاوند کانام ہے جو کہ اس نے خاوند کی محبت میں اپنے نام کے ساتھ ملا لیا ہے۔

    بعض لڑکیوں کے نام ابتداء میں والد کے نام کے لاحقہ پر مشتمل ہوتے ہیں جیسے حمنہ اسلم، عائشہ اختر، آمنہ آصف ان ناموں میں اسلم، اختر، آصف ان کے والد کا نام ہوتا ہے اور شادی کے بعد وہ اس کی جگہ اپنے خاوند کا نام لگا لیتی ہیں جیسے حمنہ اشرف، عائشہ افضل، آمنہ اکرم وغیرہ۔ تو یہ بھی ان کے جاننے والوں سبھی کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان کے خاوندوں کے نام ہیں۔ اور اس طرح کرنا ولدیت تبدیل کرنا نہیں بلکہ نام تبدیل کرنا کہلاتا ہے۔ اور نام عمر کے کسی بھی حصہ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ شریعت میں اس بارہ کوئی ممانعت نہیں ہے۔ بلکہ خود رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے مناسب موقعوں پر مختلف لوگوں کے نام تبدیل فرمائے ہیں۔ اور اپنے نام کے ساتھ خاوند کا نام لگانے کو مغربی معاشرہ کی روایت قرار دینا سراسر نا انصافی ہے۔ کیونکہ اہل مغرب کی روایت میاں بیوی والی نہیں بلکہ ان کی روایت تو بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ والی ہے۔ جن کی دوستیاں صرف شہوت رانی کے لیے ہوتی ہیں یا کسی اور مطلب کی حدتک۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں