اسقاط حمل اور اس کے احکامات

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ ایک بہن کا اسقاط حمل ہوا، لیکن وہ بلیڈنگ کے دوران بھی نماز پڑھتی رہی تو اسقاط حمل کے کیا احکام ومسائل ہیں؟

751 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:
    بہن: سب سے پہلے تو یہ جان لیجیے کہ اسقاط حمل بالکل بھی جائز نہیں لیکن کسی شرعی سبب اوروہ بھی بہت ہی تنگ حدود میں رہتے ہوئے۔ تو پھر اسقاط حمل کروایا جاسکتا ہے۔ دوسری بات جب حمل پہلے مرحلہ میں ہوجوکہ چالیس یوم ہے اوراسقاط حمل میں کوئی شرعی مصلحت ہویا پھر کسی ضررکودورکرنا مقصود ہوتواسقاط حمل جائز ہے، لیکن اس مدت میں تربیت اولاد میں مشقت یا ان کے معیشت اورخرچہ پورا نہ کرسکنے کےخدشہ کے پیش نظر یا ان کے مستقبل کی وجہ سے یا پھر خاوند بیوی کے پاس جواولاد موجود ہے اسی پراکتفا کرنے کی بنا پراسقاط حمل کروانا جائز نہيں۔ تیسری بات جب مضغہ اورعلقہ ( یعنی دوسرے اورتیسرے چالیس یوم ) ہوں تواسقاط حمل جائز نہيں لیکن اگر میڈیکل بورڈ یہ فیصلہ کرے کہ حمل کی موجودگی ماں کے لیے جان لیوا ہے اوراس کی سلامتی کے لیے خطرہ کا باعث ہے توپھر بھی اس وقت اسقاط حمل جائز ہوگا جب ان خطرات سے نپٹنے کے لیے سارے وسائل بروے کارلائيں جائيں لیکن وہ کارآمد نہ ہوں۔ چوتھی بات حمل کے تیسرے مرحلے اورچارماہ مکمل ہوجانے کے بعد اسقاط حمل حلال نہیں ہے لیکن اگر تجربہ کاراورماہر ڈاکٹر یہ فیصلہ کریں کہ ماں کے پیٹ میں بچے کی موجودگی ماں کی موت کا سبب بن سکتی ہے، اوراس کی سلامتی اورجان بچانے کے لیے سارے وسائل بروئے کارلائے جاچکے ہوں، تواس حالت میں اسقاط حمل جائز ہوگا۔ ان شروط کے ساتھ اسقاط حمل کی اجازت اس لیے دی گئی ہے کہ بڑے نقصان سے بچا جاسکے اورعظیم مصلحت کوپایا جاسکے ۔

    جہاں تک اسقاط حمل پر احکامات کی بات ہے تو حمل کے چار مختلف مراحل کی وجہ سے احکامات بھی الگ الگ ہیں

    پہلا حکم:
    اگر حمل پہلے دو مراحل میں ہے یعنی: ابتدائی چالیس دن میں مرد اور عورت کے پانی کی شکل میں نطفہ رحم میں موجود ہو، یا پھر دوسرے مرحلہ میں منتقل ہو کر علقہ یعنی خون کا لوتھڑا بن چکا ہو، اور یہ مرحلہ دوسرے چالیس دن یعنی حمل کی 80 دن کی عمر تک جاری رہتا ہے، تو ان دونوں مرحلوں میں اسقاط حمل یعنی: نطفہ یا علقہ کی صورت میں متفقہ طور پر کوئی حکم لاگو نہیں ہوتا، چنانچہ خاتون نماز روزہ پابندی سے ادا کرے گی، بالکل ایسے ہی جیسے اس کا اسقاط حمل ہوا ہی نہیں ہے، تاہم اگر اسے خون خارج ہونے کی شکایت ہو تو ہر نماز کےلیے وضو کرے گی، جیسے مستحاضہ کا خون ہوتا ہے۔

    دوسرا حکم:
    اگر اسقاط حمل تیسرے مرحلے یعنی: مضغہ (گوشت کا لوتھڑا) کی حالت میں ہو، اور اس مرحلے میں اعضاء، شکل وصورت، اور انسانی جسم کی بناوٹ شروع ہو جاتی ہے، یہ مرحلہ 81 ویں دن سے 120 ویں دن تک جاری رہتا ہے، اس مرحلے میں اسقاط حمل کی دو صورتیں ہیں:

    1۔ اگر گوشت کے لوتھڑے میں انسانی جسم کی ساخت اور بناوٹ بالکل بھی موجود نہ ہو، اور کوئی دایہ بھی یہ گواہی نہ دے کہ انسانی جسم کی بناوٹ شروع ہوچکی ہے، تو ایسے گوشت کے لوتھڑے کو ساقط کرنے کا وہی حکم ہے جو پہلے دو مراحل میں تھا، چنانچہ ایسی صورت میں بھی کوئی حکم لاگو نہیں ہوگا۔

    2۔ مضغہ: گوشت کا لوتھڑا آدمی کی شکل میں ڈھل چکا ہو، اس میں انسانی جسم کی مکمل بناوٹ اور ساخت ہو یا کم از کم اس میں انسانی جسم کی شکل واضح ہوتی ہو، مثلاً: ہاتھ ، پاؤں وغیرہ، یا انسانی جسم کی ہلکی سی جھلک ملتی ہو، اور دایہ یہ گواہی دے کہ یہ انسانی جسم کی ابتدائی شکل ہے، تو یہاں پر مضغہ کی صورت میں اسقاط حمل کرنے پر نفاس کی مدت لاگو اور(مطلقہ یا بیوہ ہونے کی صورت میں ) ایسی عورت کی عدت مکمل ہو جائے گی۔

    تیسرا حکم:
    اگر حمل چوتھے مرحلے میں ہو، یعنی: روح پھونکے جانے کے بعد ساقط کیا جائے، یہ مرحلہ پانچویں ماہ یعنی: 121 ویں دن سےلے کر آخر تک ہوتا ہے، تو اس کی بھی دو حالتیں ہیں

    1۔ ولادت کے وقت نہ چیخے، تو اس کا حکم دوسرے حکم کی دوسری حالت والا ہوگا، تاہم اس صورت میں اسے غسل اور کفن دیا جائے گا، اس کا نام بھی رکھا جائے گا، اور اس کی طرف سے عقیقہ بھی ہوگا۔

    2۔ ولادت کے وقت چیخے تو اس کے احکامات کامل مولود کے ہوں گے، اور لہذا سابقہ صورت میں گزرے ہوئے احکامات کےساتھ ساتھ یہاں اس بات کا بھی اضافہ ہوگا کہ وہ وصیت کی مد میں ملنے والے مال کا مالک ہوگا، اور وراثت میں بھی حصہ کا حقدار ٹھہرے گا، اس لئے وہ خود بھی وارث بنے گا، اور مرنے پر اس کا مال بھی تقسیم ہوگا، اسی طرح دیگر احکامات بھی مرتب ہونگے۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں