اعتکاف کے دوران اجتماعی عبادت کا حکم

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ کیا دوران اعتکاف معتکفین اجتماعی عبادت کرسکتے ہیں یعنی نوافل کی جماعت یا درس وغیرہ کی صورت میں؟

452 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! اعتکاف کا مطلب یہ ہے کہ آدمی عبادت کےلئے رمضان کے آخری دس دن عباد ت میں گزارے اور یہ دن اللہ کے ذکر کےلئے مختص کردے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال ماہ رمضان میں دس دن کا اعتکاف کرتے تھے اور جس سال آپ فوت ہوئے اس سال بیس دن کا اعتکاف فرمایا تھا۔ جیسا کہ حدیث ہے

    حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ عَنْ أَبِي حَصِينٍ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْتَكِفُ فِي كُلِّ رَمَضَانٍ عَشْرَةَ أَيَّامٍ فَلَمَّا كَانَ الْعَامُ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ اعْتَكَفَ عِشْرِينَ يَوْمًا۔(بخاری:2044)
    ہم سے عبد اللہ بن ابی شبیہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوبکر بن عیاش نے بیان کیا، ان سے ابوحصین عثمان بن عاصم نے، ان سے ابوصالح سمان نے او ران سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال رمضان میں دس دن کا اعتکاف کیا کرتے تھے۔ لیکن جس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا، اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا تھا۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں بحالت اعتکاف عباد ت کے لئے اتنی محنت اور مشقت اٹھاتے کہ دوسرے دنوں میں اتنی کوشش نہ کرتے تھے۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے

    حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي يَعْفُورٍ عَنْ أَبِي الضُّحَى عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ شَدَّ مِئْزَرَهُ وَأَحْيَا لَيْلَهُ وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ۔(بخاری:2024)
    ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابویعفور نے بیان کیا، ان سے ابوالضحیٰ نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب ( رمضان کا ) آخری عشرہ آتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنا تہبند مضبوط باندھتے ( یعنی اپنی کمر پوری طرح کس لیتے ) اور ان راتوں میں آپ خود بھی جاگتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگایا کرتے تھے۔

    احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اعتکاف اور طاق راتوں کا قیام ایک انفرادی عبادت ہے۔ صرف نماز تراویح کو ادا کرنے میں اجتماعیت کو برقرار رکھنے کی گنجائش ہے، اس کے علاوہ کسی مقام پر اجتماعیت نظر نہیں آتی، اس لئے ہمیں ان قیمتی دنوں اور سنہری راتوں کو اجتماعی اعتکاف اور اجتماعی مجالس کی نذر نہیں کردینا چاہیے۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے اس کی نظیربھی نہیں ملتی ۔لہٰذا معتکفین کو تراویح کے علاوہ باقی تمام عبادات انفرادی کرنی چاہیے۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں