اپنے پیاروں کے مرنے کے بعد ان کے لئے دعا کرنا

سوال

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے جو پیارے اس دنیا سے گزر گئے ان کی بخشش کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟

621 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    میت کو جن اعمال کا فائدہ مرنے کے بعد ہوتا ہے وہ یہ ہیں ۔
    دعا
    دعا کے بارے میں تو سب کا اتفاق ہے کہ اگر مرنے والا کافر و مشرک نہ ہو تو اس کے لیے دعا کرنا مسنون ہے۔ اللہ وحدہٗ لاشریک لہ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا:
    {وَالَّذِیْنَ جَآئُوْ مِنْ بَعْدِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلَا

    تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلاًّ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَا اِنَّکَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ صلی الله علیہ وسلم} [الحشر:۱]
    ’’ اور جو لوگ ان (اہل ایمان) کے بعد آئے، وہ کہتے ہیں، اے ہمارے پروردگار! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو جو ایمان کے ساتھ ہم سے پہلے گزر گئے اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں کے لیے کینہ نہ بنا۔ اے ہمارے پروردگار! بلاشبہ تو مشفق مہربان ہے۔‘‘
    اسی طرح حدیث میں آتا ہے جب نجاشی فوت ہوا ، تو نبی صلی الله علیہ وسلم نے اس کی اطلاع دی، تو فرمایا:
    (( اِسْتَغْفِرُوْا لِأَخِیْکُمْ ))]1
    ’’ اپنے بھائی کے لیے استغفار کرو۔‘‘
    2 ۔ صدقہ جاریہ:
    یعنی مسلمان اپنی زندگی میں ایسا کام کرجائے جس کا ثواب و فائدہ اسے مرنے کے بعد بھی برابر ملتا رہے، اور اس کے جاری کردہ کام سے بعد میں لوگ بھی فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں۔ اس کے بارے میں بہت سی احادیث ہیں۔
    اِذَا مَاتَ الْاِنْسَانُ اِنْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلَُہٗ اِلاَّ مِنْ ثَلاَثَۃٍ اِلاَّ مِنْ صَدَقَۃٍ جَارِیَۃٍ اَوْ عِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِہٖ اَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُوْ لَہٗ ))1
    ’’ جب آدمی مرجاتا ہے تو اس کا عمل اس سے منقطع ہوجاتا ہے، مگر تین چیزیں ہیں (جن کا فائدہ اسے مرنے کے بعد ہوتا رہتا ہے۔ )(۱)صدقہ جاریہ۔ (۲) علم جس سے نفع حاصل کیا جاتا ہے۔ (۳) نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہے۔‘‘
    بلاشبہ مومن آدمی کو اس کے عمل اور نیکیوں سے اس کی موت کے بعد جو ملتا ہے اس میں سے (۱) ایسا علم جس کی اس نے تعلیم دی اور اسے نشر کیا۔ (۲) اور نیک اولاد، جو اس نے چھوڑی۔ (۳) اور مصحف (قران) جو اس نے ورثاء کے لیے چھوڑا۔ (۴) یا جو اس نے مسجد تعمیر کی۔ (۵) یا مسافر خانہ تعمیر کیا۔(۶) یا نہر جاری کی۔ (۷) یا اپنی زندگی اور تندرستی میں اپنے مال سے صدقہ نکالا اسے مرنے کے بعد ان کا اجر ملتا رہے گا۔‘‘
    3۔ میت کے ولی کا اس کی جانب سے نذر کے روزوں کی قضا کرنا:
    4۔ میت کی طرف سے قرض کی ادائیگی:
    میت کی طرف سے قرض کی ادائیگی خواہ ولی کرے یا کوئی اور شخص۔ جب قرض کی ادائیگی ہوجائے گی، تو میت کو اس کا نفع بھی ملتا ہے۔
    5۔ میت کی طرف سے صدقہ کرنا:
    1 عائشہ رضی الله عنہ سے مروی ہے:
    (( اِنَّ رَجُلاً قَالَ لِلنَّبِیِّ صلی الله علیہ وسلم اِنَّ أُمِّی افْتُلِتَتْ نَفْسُھَا وَأُرَاھَا لَوْ تَکَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ أَفَاَتَصَدَّقُ عَنْھَا؟ قَالَ نَعَمْ تَصَدَّقْ عَنْھَا )) 2
    ’’ ایک آدمی نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے کہا میری ماں فوت ہو گئی ہے۔ میرا خیال ہے اگر مرتے وقت وہ بات کر سکتی تو صدقہ کرتی۔ کیا میں اس کی طرف سے صدقہ کروںـ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : ہاںتو اس کی طرف سے صدقہ کر۔‘
    6 ۔ میت کی طرف سے حج کرنا:
    ’’ جہینہ قبیلے کی ایک عورت نبی صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئی۔ اس نے کہا: میری ماں نے حج کرنے کی نذر مانیتھی، اس نے حج نہ کیا یہاں تک کہ فوت ہوگئی۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں تو اس کی طرف سے حج کر۔ بتاؤ کیا تیری ماں پر قرض ہوتا تو تم ادا کرتی؟ اللہ کا حق ادا کرو۔ اللہ وفا کا زیادہ حقدار ہے۔‘‘
    اس حدیث سے معلوم ہوا کہ میت کی طرف سے حج اگر کیا جائے، تو اسے نفع ہوتاہے۔ مذکورہ بالا اعمال کے علاوہ قل ، تیجے، ساتویں، چالیسویں، قرآن خوانی وغیرہ ایسے امور ہیں، جن کا ذکر کسی بھی حدیث صحیح میں موجود نہیں، بلکہ یہ صرف اور صرف رسوم ہیں۔ شرع سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔
    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں