نبی کے وسیلے سے مانگنا

سوال

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

سوال:

سر کیا رسول اللہ کے وسیلے سے مانگنا درست ہے.

302 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب :

    دعا میں حضور نبی کریمﷺ کے وسیلے اور واسطے کا جو آپ نے پوچھا ہے تو اس سلسلے میں ایک بنیادی اصول ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ شریعت اسلامیہ میں حق و صداقت کا معیار کتاب وسنت ہے اور ہر وہ عمل جو بظاہر کتنا ہی خوب صورت کیوں نہ معلوم ہوتا ہو اگر اس کا ثبوت قرآن یا رسول اللہ ﷺ کے عمل سے نہیں تو وہ ہمارے لئے دلیل یا حجت نہیں چاہئے اس کا عام رواج کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔ اس کےبعد اگر صحابہ کرام سے کسی چیز کا ثبوت مل جائے اور وہ قرآن و حدیث کے کسی حکم سے متصادم نہیں تو وہ بھی قابل قبول ہوگا۔ لیکن جس کام کا طریقہ واضح طور پر قرآن و سنت میں بیان کردیا گیا ہو اور صحابہ کرامؓ کا عمل بھی اس کے مطابق ہو اسے چھوڑ کر دوسرا طریقہ نکالنا یا اس کےبرعکس کوئی کام شروع کردینا قرآن کے اس ارشاد کے مطابق اس نے رسولﷺ کے طریقے کی مخالفت کرکے جہنم کا راستہ اختیار کیا ہے۔
    ارشاد ہے‘‘ اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی بے شک اللہ تعالیٰ سخت سزادینے والا ہے۔’’ (انفال:۱۳)
    اب ظاہر ہے کہ دعا اللہ کے سامنے عاجزی اور پکار کا نام ہے اور عبادت کا ماحصل اور نچوڑ دعاہی ہے۔ حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا:‘‘ الدعاء هو العبادة’’ (مشکوۃ اللالبانی ج۲ کتاب الدعوات ص ۳۹۳ رقم الحدیث ۲۲۳۰ ) کہ دعا ہی عبادت ہے۔ ایک روایت میں ہے ‘‘ الدعاء مخ العباد’’ کہ دعا عبادت کا نچوڑ ہے اب دعا جسے عبادت کا اصل نچوڑ قرار دیا گیا ہے اس کا کوئی طریقہ بھی آخر اللہ اور اس کے رسولﷺ نے ضرور بتایا ہوگا۔ اللہ سے مانگنے اور اسے پکارنے کے طریقے آخر کیا ہیں؟ اس سلسلے میں یوں تو قرآن میں متعدد مقامات پر دعاء کا ذکر آتا ہے لیکن اختصار کے پیش نظر صرف دو آیتیں پیش کی جاتی ہیں۔
    پہلی آیت سورہ بقرہ کی کہ اے نبیﷺجب میرے بندے تجھ سے میرے بارے میں سوال کریں تو انہیں کہہ دیں کہ میں قریب ہوں اور جب بھی کوئی دعا کرنے والا دعا کرتا ہے میں سنتا ہوں اور قبول کرتا ہوں ( البقرہ آیت ۱۸۶)
    سورہ سباء کی آیت نمبر ۴ میں بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
    دوسری آیت ہے سورہ مومن کی ‘‘ اور تمہارے رب نے کہا مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا’’ (مومن آیت۶۰)
    اب ان دونوں آیتوں میں کسی جگہ بھی واسطے یا صدقے کا حکم تو کجا ذکر تک نہیں بلکہ اس کے برعکس یہ کہا گیا کہ اللہ قریب ہے’ وہ جب پکاروسنتا ہے یعنی اتنا قریب ہے کہ اس کے لئے وسیلے کہ حاجت ہی نہیں۔ جیسے سورہ ق میں ہے کہ میں تمہاری شہ رگ سے بھی قریب ہوں ۔ ظاہر ہے یہاں کسی کے واسطے یا سیڑھی کی گنجائش ہی نہیں ہے اور جو قریب ہو ہر بات سنتا ہو دیکھتا ہو اور دل کہ چھپی ہوئی باتوں کو جانتا بھی ہو اس تک پہنچنے یا اسے پکارنے کے لئے درمیان میں کسی واسطے کی بات کرنا عقل و بصیرت کےبھی خلاف ہے۔
    پھر جب قرآن ہمارے لئے کتاب ہدایت ہے اور دین کےتمام مسائل و احکام کا اصل منبع ہے ۔ اس قرآن میں آدم علیہ السلام سے لے کر سید الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ تک انبیاء کی دعائیں موجود ہیں’ وہ کس لئے قرآن میں ذکر کی گئی ہیں؟ اس لئے کہ ہمیں بھی اللہ سے دعا کرنے اور اس سے مانگنے کا طریقہ معلوم ہوجائے۔ تو کسی قرآنی دعا میں کسی نبی کسی فرشتے یا ولی کے واسطے اور وسیلے کا ذکر تک نہیں۔
    اب انبیاء کرام کی دعاؤں کا مطالعہ کیجئے کہ کسی نبی نے کسی دعا میں اپنے سے پہلے یا بعد میں آنے والے نبی کو وسیلہ یا واسطہ نہیں بنایا۔ ہمارے ہاں بعض حلقوں میں جو یہ مشہور ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی پہلی دعا کی تھی تو اس میں رسول اللہ ﷺ کے نور کا واسطہ دیا تھا جو قطب ستارے میں تھا یہ روایت بالکل غلط ہے۔ یہ سند کے اعتبار سے بھی ثابت نہیں اور قرآن کے بھی صریح خلاف ہے۔
    قرآن میں حضرت آدم اور حضرت حوا کی دعا کے یہ الفاظ ثابت ہیں:
    ﴿قَالَا رَ‌بَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ‌ لَنَا وَتَرْ‌حَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِ‌ينَ ﴿٢٣﴾… سورة الاعراف

    ‘‘ یعنی ان دونوں نے یہ کہا کہ اے اللہ ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے معاف نہ کیا تو ہم ظالموں میں سے ہو جائیں گے۔’’ (اعراف: ۲۳)
    اب یہاں کسی واسطے نور یا ستارے کا کوئی ذکر نہیں ۔ مگر افسوس قرآن کی تعلیمات سے جہالت کی وجہ سے ہمارے ہاں بنیادی عقائد کے مسائل بھی اختلافی بنا دیئے گئے ہیں۔
    (۴)دوسرے نبیوں میں حضرت موسی کی دعا سورہ طہ میں آیت نمبر ۲۵’ حضرت ابراہیمؑ کی دعا البقرہ آیت نمبر ۱۲۵ تا ۱۲۹’ حضرت نوح کی دعا سورہ ہود آیت نمبر ۴۵’ حضرت عیسیٰؑ کی دعا سورہ المائدہ آیت نمبر ۱۱۴’ حضرت ایوب کی دعا سورہ الانبیاء آیت نمبر ۸۳ میں ’ حضرت یونس کی دعا سورہ الانبیاء آیت نمبر ۸۷ میں۔
    اسی طرح اور بھی متعدد مقامات پر انبیاء اور اہل ایمان کی دعاؤں کےنمونے قرآن میں موجود ہیں اور ان تمام دعاؤں میں کسی جگہ کسی واسطے وسیلے یا طفیل کا ذکر تک نہیں ۔ لہٰذاس اللہ کو پکارنے یا دعا کرنے میں کوئی واسطہ یا وسیلہ ڈالنا غیر مشروع ہے۔
    آخر میں دو چیزوں کی وضاحت بھی کردوں کہ زندہ آدمی کی دعا یا نیک اعمال کے وسیلے میں کوئی اختلاف نہیں۔ کسی بھی آدمی سے آپ دعا کروا سکتے ہیں اور درحقیقت وہ اللہ ہی سے دعا کرے گا’ اس سے کسی دوسرے کے وسیلے یا اللہ تک پہنچنے کےلئے کسی واسطے کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ کوئی دوسرا کسی کےلئے دعا کرے یا سفارش کرے جب کہ وہ دنیا میں موجود اور زندہ ہو تو اس میں کوئی قباحت نہیں اسی طرح کسی سے علم حاصل کرنا’نیکی اور خیر کی باتیں سیکھنا اور ہدایت کا راستہ معلوم کرنایہ اس وسیلے میں داخل نہیں جو ناجائز و غیر مشروع ہے۔ بلکہ یہ وہ اسباب ہیں جو دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی تعلیم اور ہدایت کے لئے پیدا فرمائے ہیں۔دراصل خطرناک اور ناجائزیہ عقید ہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی بات فلاں کے واسطے کے بغیر سنتا نہیں یافلاں کے طفیل سے وہ جلدی سنتا یا قبول کرتا ہے۔ اس عقیدہ کا کوئی ثبوت یا مثال نہ کسی قرآنی دعا میں ہے اور نہ ہی ان کے علاوہ جو دعائیں رسول اللہ ﷺ نے کیں ان میں اس واسطے اور طفیل کا کوئی ذکر ہے۔
    ہاں احادیث میں اپنے نیک اعمال کا واسطہ دے کر اللہ سے مانگنے اور اسے پکارنے کا ثبوت موجود ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی مختلف صفات کا واسطہ دے کر بھی دعا کر سکتے ہیں۔ رسول اکرم ﷺ کی دعاؤں میں ایسے الفاظ موجود ہیں کہ آپ اللہ کی صفتوں کا ذکر کرنے کے بعد پھر اس سے دعا کرتے۔
    ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں