جھوٹ بول کر طلاق دینا اور حق مہر کا مسئلہ

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

ایک بہن نے سوال کیا ہے، کہتی ہیں کہ میری کچھ عرصہ پہلے شادی ہوئی تھی، میرے سسرال والوں نے مجھے جو شادی پہ زیور ڈالا تھا، وہ میرے حق مہر میں لکھ دیا گیا تھا، اصل میں میرے شوہر وہ بیمار تھے اور ان میں اولاد پیدا کرنے والے جراثیم نہیں۔ اس کے علاوہ بھی ان کو ایک دو اور بیماریاں ہیں وہ نشہ بھی کرتے ہیں، لیکن میرے سسرال والوں نے یہ بات ہم سے چھپائی کہ ہمارا بیٹا بالکل ٹھیک ہے۔ اور بھی بہت سے جھوٹ بولے، مطلب انہوں نے ہمیں دھوکہ دیا ہے۔ میرا آپ سے یہ سوال ہے کہ کیا میں طلاق کی صورت میں ان کو اپنا حق مہر واپس کرونگی یا نہیں؟۔ اور دوسری بات اب جب انہوں نے مجھے طلاق بھیجی ہے تو اس میں اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ مجھ میں یہ کمی تھی جس کی وجہ سے میری بیوی میرے ساتھ رہنے سے انکاری ہے بلکہ یہ لکھا ہے کہ ان کی آپس میں نہیں بنتی تھی اس وجہ سے طلاق دی گئی ہے۔ مطلب انہوں نے میرا ہی قصور نکالا ہے کہ یہ میرا ساتھ نہیں دینا چاہتی، وجہ نہیں بتائی۔ آپ یہ بتائیں کیا ان کا طلاق کی وجہ بتانا ضروری تھا یا نہیں۔

456 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن سب سے پہلے تو ہماری ٹیم رب کے حضور دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی قسمت اچھی کرے، اور جنہوں نے آپ کےساتھ اور آپ کے گھر والوں کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے۔ آمین۔ آپ کے سوال میں بتائی گئی صورت حال پردین اسلام کی طرف سے ہمیں یہ راہنمائی دی گئی ہے کہ ایسی صورت ہو، اور عورت مرد کے ساتھ کسی شرعی عذر کی بناء پر نہ رہنا چاہتی ہو تو عورت خلع لے سکتی ہے۔ اور خلع کہتے ہیں کہ اگر میاں بیوی میں اس قدر نفرت پھیل جائے کہ وہ آئندہ ایک ساتھ نبھاہ نہ کرسکتے ہوں، یا مرد میں مردانگی قوت کی کمی ہو، یا مرد ایسی ہمیشگی بیماری میں مبتلا ہو کہ عورت اس کے ساتھ نہ رہنا چاہتی ہو، اورپھر ان صورتوں میں ایک ساتھ رہ کر احکامات الٰہیہ کی نافرمانی میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو تو عورت کا اپنے خاوند سے چھٹکارا حاصل کرنا خلع کہلاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا

    فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ- (البقرہ:229)
    اگر تمہیں ڈر ہو کہ یہ دونوں اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکیں گے تو عورت رہائی پانے کے لئے کچھ دے ڈالے، اس میں دونوں پر گناه نہیں۔

    عورت اپنے خاوند کو مال دے کر طلاق دینے پر راضی کرلے کیونکہ وہ شرعی عذر کی وجہ سے اس کے ساتھ نباہ نہیں کرسکتی۔ لہٰذا جب ایسی صورت پیدا ہوجائے اورمرد طلاق بھی نہ دے رہا ہو تو عورت کو خلع لے لینا چاہیے۔

    دوسری بات بہن! آپ کے سوال میں تین باتیں ہیں

    1۔ دھوکہ میں رکھ کر لڑکی سے نکاح کیا جائے تو کیا حکم ہے؟
    2۔ طلاق دیتے وقت جھوٹ بولا جائے تو کیا حکم ہے؟
    3۔ جو کچھ حق مہر میں لکھ دیا گیا ہو کہ وہ عورت کو واپس کرنا چاہیے یا نہیں؟

    ٭ پہلی بات جہاں تک دھوکہ دہی کی ہے، تو شریعت میں جھوٹ اور دھوکہ دہی حرام وناجائز ہے اس کا گناہ ووبال جھوٹ بولنے والے اور دھوکہ دینے والے کو ہوگا، مرد میں جنسی کمزوری اور اسی طرح دیگربیماریاں تھیں تو پہلے اس کو ان کا علاج کرنا چاہیے تھا، اور جب زوجیت کے حقوق ادا کرنے کی قدرت نہ تھی تو عورت سے شادی ہی نہ کرنی چاہیے تھی، دھوکہ دے کر عورت کی زندگی سے کھلواڑ کرنا شرعاً وعقلاً ممنوع اور حرام فعل ہے۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔

    ٭ دوسری بات جھوٹ بول کر اور بغیر وجہ بتائے طلاق دینے کی جہاں تک بات ہے، تو طلاق دینے کےلیے وجہ بتانا یا پھر سچ بول کر طلاق دینا یہ ضروری نہیں۔ بلکہ جھوٹ بول کر اور وجہ بتائے بغیر بھی طلاق دی جائے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ ہاں جھوٹ بولنے کا گناہ الگ ہوگا۔

    ٭ تیسری بات طلاق کے بعد حق مہر واپس کرنے کی ہے، تو بہنا اس کی تفصیل کچھ اس طر ح ہے کہ

    1۔ خلوت سے پہلے طلاق ہوجائے تو حق مہر کی کیا صورت ہوگی۔
    2۔ خلوت کے بعد طلاق ہوجائے تو حق مہر بارے کیا حکم ہے۔
    3۔ خلوت اور پھر مباشرت کے بعد طلاق ہوجائے تو حق مہر بارے کیا شرعی امر ہے۔

    ٭ پہلی صورت جب کسی وجہ سے عورت كو خلوت (میاں بیوی کا الگ ہوجانا) اور دخول (خاوند کا بیوی سے مباشرت کرنا) سے پہلے طلاق دے دى جائے تو خاوند نے بیوی کو اس مقرر کردہ حق مہر میں سے نصف حق مہر كى ادائيگى كرنا ہوتی ہے، جیسا کہ اللہ عزوجل كا فرمان ہے

    وَإِن طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ إِلَّا أَن يَعْفُونَ أَوْ يَعْفُوَ الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ ۚ وَأَن تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۚ وَلَا تَنسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ۔ (البقرۃ: 237)
    اور اگر تم عورتوں کو اس سے پہلے طلاق دے دو کہ تم نے انہیں ہاتھ لگایا ہو اور تم نے ان کا مہر بھی مقرر کردیا ہو تو مقرره مہر کا آدھا مہر دے دو، یہ اور بات ہے کہ وه خود معاف کردیں یا وه شخص معاف کردے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گره ہے تمہارا معاف کردینا تقویٰ سے بہت نزدیک ہے اور آپس کی فضیلت اور بزرگی کو فراموش نہ کرو، یقیناً اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے۔

    باقی مطلقہ عورت كو یہ حق بھی حاصل ہے كہ وہ اگر بالغ اور عقلمند ہو تو اپنے مہر ميں سے كچھ حصہ معاف كرسکتی ہے، (لیکن یہ معاف کرنا ضروری نہیں، بلکہ چاہے تو پورا حق مہر لے سکتی ہے) جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

    إِلَّا أَن يَعْفُونَ
    مگر يہ كہ وہ معاف كر ديں

    ٭ دوسری صورت جب میاں بیوی کی خلوت یعنی وہ الگ تو ہوجائیں لیکن مجامعت (مباشرت) نہ ہو تو پھر اس مسئلہ میں مابین فقہا اختلاف ہے کہ کیا خاوند کو پورا حق مہر دینا ہوگا یا پھر آدھا؟ جمہور كے ہاں يہى ہے كہ خاوند کے ذمہ مکمل حق مہر کی ادائیگی واجب ہو جاتی ہے، چنانچہ جس نے بھى اپنى بيوى سے صحيح خلوت كر لى، يعنى وہ بغير كسى بڑے يا چھوٹے يا امتياز كرنے والے بچے كے بغير صرف دونوں ہى خلوت كر ليں اور پھر عورت كو طلاق ہو جائے تو خاوند کو طے شدہ پورا حق مہر دینا ہوگا۔

    ٭ تیسری صورت یہ ہے کہ خلوت بھی ہوجائے اور مباشرت بھی ہوجائے اور پھر خاوند طلاق دے دے تو پھر خاوند کو پورا حق مہر دینا ہوتا ہے، اور اگر وہ پہلے ہی حق مہر دے چکا ہے تو عورت اسے واپس نہیں کرے گی۔

    لہٰذا جو زیورحق مہر میں لکھ دیئے گئے ہیں، تو آپ اسے واپس نہ کریں۔ یہ آپ کا مال ہے، اور آپ کا ہی حق ہے۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں